Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Iftikhar Arif's Photo'

پاکستان کے اہم ترین شاعروں میں نمایاں، اپنی تہذیبی رومانیت کے لیے معروف

پاکستان کے اہم ترین شاعروں میں نمایاں، اپنی تہذیبی رومانیت کے لیے معروف

افتخار عارف کے اشعار

60.5K
Favorite

باعتبار

تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں

جان بہت شرمندہ ہیں

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے

آگ میں آگ ملاتا ہے پھر پانی کرتا ہے

دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں

کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں

پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں

اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں

دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں

سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئیے گئے ہم

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ

اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی

میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی

راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا

اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی

زمانہ ہو گیا خود سے مجھے لڑتے جھگڑتے

میں اپنے آپ سے اب صلح کرنا چاہتا ہوں

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں

وہی فراق کی باتیں وہی حکایت وصل

نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت

جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں

عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا

دل کبھی خواب کے پیچھے کبھی دنیا کی طرف

ایک نے اجر دیا ایک نے اجرت نہیں دی

وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں

سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا

اک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا

اک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئی تو کیا

تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات

سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں

عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی

کریں تو کس سے کریں نا رسائیوں کا گلہ

سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا

گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم

ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے

ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں

دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں

بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت

وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں

ہم بھی اک شام بہت الجھے ہوئے تھے خود میں

ایک شام اس کو بھی حالات نے مہلت نہیں دی

ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب

زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے

ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر

اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں

خاک میں دولت پندار و انا ملتی ہے

اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزا ملتی ہے

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ

ہوا ہے یوں بھی کہ اک عمر اپنے گھر نہ گئے

یہ جانتے تھے کوئی راہ دیکھتا ہوگا

وہ ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سر بازار

جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

دنیا بدل رہی ہے زمانہ کے ساتھ ساتھ

اب روز روز دیکھنے والا کہاں سے لائیں

مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا

مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی

ہزار شیوۂ حسن بیاں کے ہوتے ہوئے

در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں

خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے

روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ

رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے