Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saqi Faruqi's Photo'

ساقی فاروقی

1936 - 2018 | لندن, برطانیہ

ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر

ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر

ساقی فاروقی کے اشعار

29.3K
Favorite

باعتبار

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا

یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا

مدت ہوئی اک شخص نے دل توڑ دیا تھا

اس واسطے اپنوں سے محبت نہیں کرتے

یہ کیا طلسم ہے کیوں رات بھر سسکتا ہوں

وہ کون ہے جو دیوں میں جلا رہا ہے مجھے

اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے

یہ بات کسی اور سے کہہ بھی نہیں سکتے

اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے

مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن

مجھ کو مری شکست کی دوہری سزا ملی

تجھ سے بچھڑ کے زندگی دنیا سے جا ملی

مجھ میں سات سمندر شور مچاتے ہیں

ایک خیال نے دہشت پھیلا رکھی ہے

خدا کے واسطے موقع نہ دے شکایت کا

کہ دوستی کی طرح دشمنی نبھایا کر

وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے

مری یادوں میں اک بھولا ہوا چہرا بھی رہتا ہے

میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں

اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا

تمام جسم کی عریانیاں تھیں آنکھوں میں

وہ میری روح میں اترا حجاب پہنے ہوئے

پیاس بڑھتی جا رہی ہے بہتا دریا دیکھ کر

بھاگتی جاتی ہیں لہریں یہ تماشا دیکھ کر

ناموں کا اک ہجوم سہی میرے آس پاس

دل سن کے ایک نام دھڑکتا ضرور ہے

راستہ دے کہ محبت میں بدن شامل ہے

میں فقط روح نہیں ہوں مجھے ہلکا نہ سمجھ

میں کھل نہیں سکا کہ مجھے نم نہیں ملا

ساقی مرے مزاج کا موسم نہیں ملا

وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے

جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا

تشریح

اس شعر کا مضمون ’’روح کی الجھن ‘‘ پر قائم ہے۔ روح کی جسم سے مناسبت خوب ہے۔ شاعر کا کہنا یہ ہے کہ وہ یعنی اس کا محبوب اس کی روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے۔ یعنی میری روح کس الجھن میں ہے اسے خوب معلوم ہے۔ میں یہ سوچتا تھا کہ وہ صرف میری روح کی الجھن کا مداوا کرے گا مگر وہ تو میری جسم کی پیاس بجھانے پر بھی راضی ہوا۔ دوسرے مصرعے میں لفظ’’ بھی‘‘ کافی معنی خیز ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کا محبوب اگرچہ یہ جانتا ہے کہ وہ روح کی الجھن میں مبتلا ہے اور روح اور جسم میں ایک نوع کا تضاد ہے۔ جس سے یہ مفہوم برآمد ہوتا ہے کہ میرے محبوب کو معلوم تھا کہ اصل میں میری روح کی الجھن کی وجہ جسم کی پیاس ہی ہے مگر محبوب نے روح کی جگہ اس کے جسم کی پیاس بجھانے پر رضامندی ظاہر کی۔

شفق سوپوری

میں ان سے بھی ملا کرتا ہوں جن سے دل نہیں ملتا

مگر خود سے بچھڑ جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے

میں اپنے شہر سے مایوس ہو کے لوٹ آیا

پرانے سوگ بسے تھے نئے مکانوں میں

تجھ سے ملنے کا راستہ بس ایک

اور بچھڑنے کے راستے ہیں بہت

تم اور کسی کے ہو تو ہم اور کسی کے

اور دونوں ہی قسمت کی شکایت نہیں کرتے

لوگ لمحوں میں زندہ رہتے ہیں

وقت اکیلا اسی سبب سے ہے

دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال

اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی

بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی

میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا

جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز

واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی

ایک ایک کر کے لوگ بچھڑتے چلے گئے

یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا

قتل کرنے کا ارادہ ہے مگر سوچتا ہوں

تو اگر آئے تو ہاتھوں میں جھجک پیدا ہو

مجھے سمجھنے کی کوشش نہ کی محبت نے

یہ اور بات ذرا پیچ دار میں بھی تھا

صبح تک رات کی زنجیر پگھل جائے گی

لوگ پاگل ہیں ستاروں سے الجھنا کیسا

خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا

ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا

مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے

وگرنہ پارسا و دین دار میں بھی تھا

آگ ہو دل میں تو آنکھوں میں دھنک پیدا ہو

روح میں روشنی لہجے میں چمک پیدا ہو

وہ خدا ہے تو مری روح میں اقرار کرے

کیوں پریشان کرے دور کا بسنے والا

روح میں رینگتی رہتی ہے گنہ کی خواہش

اس امربیل کو اک دن کوئی دیوار ملے

میں اپنی آنکھوں سے اپنا زوال دیکھتا ہوں

میں بے وفا ہوں مگر بے خبر نہ جان مجھے

خاک میں اس کی جدائی میں پریشان پھروں

جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا

دل ہی عیار ہے بے وجہ دھڑک اٹھتا ہے

ورنہ افسردہ ہواؤں میں بلاوا کیسا

وہی جینے کی آزادی وہی مرنے کی جلدی ہے

دوالی دیکھ لی ہم نے دسہرے کر لیے ہم نے

ہم تنگنائے ہجر سے باہر نہیں گئے

تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے مر نہیں گئے

عجب کہ صبر کی میعاد بڑھتی جاتی ہے

یہ کون لوگ ہیں فریاد کیوں نہیں کرتے

میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے

وہ بھی محتاج ملا وہ بھی سوالی نکلا

میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے

جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے

ڈوب جانے کا سلیقہ نہیں آیا ورنہ

دل میں گرداب تھے لہروں کی نظر میں ہم تھے

میری آنکھوں میں انوکھے جرم کی تجویز تھی

صرف دیکھا تھا اسے اس کا بدن میلا ہوا

اس کے وارث نظر نہیں آئے

شاید اس لاش کے پتے ہیں بہت

حادثہ یہ ہے کہ ہم جاں نہ معطر کر پائے

وہ تو خوش بو تھا اسے یوں بھی بکھر جانا تھا

میں تو خدا کے ساتھ وفادار بھی رہا

یہ ذات کا طلسم مگر ٹوٹتا نہیں

ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اتر کے نہ جا

اس ایک آن میں سب کچھ تباہ کر کے نہ جا

مٹ جائے گا سحر تمہاری آنکھوں کا

اپنے پاس بلا لے گی دنیا اک دن

مرا اکیلا خدا یاد آ رہا ہے مجھے

یہ سوچتا ہوا گرجا بلا رہا ہے مجھے

نئے چراغ جلا یاد کے خرابے میں

وطن میں رات سہی روشنی منایا کر

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے