آسمان پر اشعار

شاعری پڑھتے ہوئے جو

ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ تخلیقی زبان لفظ کواس کے معنی اوراس سے وابستہ عمومی تصورسے بہت آگے لے جاتی ہے ۔ آسمان کلاسیکی شاعری کا ایک بنیادی استعارہ ہے اوراس استعارے کے اردگرد پھیلی ہوئی تصورات کی دنیا بھی آسمان کےعمومی تصورسے بہت مختلف ہے ۔ عشق کے باب میں آسمان ایک مضبوط کردار کے طورپرسامنے آتا ہے ۔ عاشق کے خلاف ساری چالیں وہی چلتا ہے اوراس پر ہونے والے سارے ظلم وستم اسی کی کارکردگی کا نتیجہ ہیں ۔ اسی لئےعاشق اسی کی طرف ایک نظرکرم کی امید لئےدیکھتا رہتا ہے ۔ یہ ایک چھوٹا سا انتخاب ہم آپ کیلئے پیش کررہے ہیں ۔

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

جون ایلیا

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

علامہ اقبال

کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے

تمہارے نام کی اک خوبصورت شام ہو جائے

بشیر بدر

اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف

ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم

نامعلوم

زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لیے

تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لیے

عبید اللہ علیم

جتنی بٹنی تھی بٹ چکی یہ زمیں

اب تو بس آسمان باقی ہے

راجیش ریڈی

آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن

آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے

انور مسعود

ذرہ سمجھ کے یوں نہ ملا مجھ کو خاک میں

اے آسمان میں بھی کبھی آفتاب تھا

لالہ مادھو رام جوہر

ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے

صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں

مومن خاں مومن

ہم کسی کو گواہ کیا کرتے

اس کھلے آسمان کے آگے

رسا چغتائی

رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا

زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا

پروین شاکر

آسمان پر جا پہنچوں

اللہ تیرا نام لکھوں

محمد علوی

وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں

فرشتے لوریاں گاتے ہیں اس کے کانوں میں

عبد الرحیم نشتر

زمین کی کوکھ ہی زخمی نہیں اندھیروں سے

ہے آسماں کے بھی سینے پہ آفتاب کا زخم

ابن صفی

آسماں ایک سلگتا ہوا صحرا ہے جہاں

ڈھونڈھتا پھرتا ہے خود اپنا ہی سایا سورج

آزاد گلاٹی

ظفرؔ زمیں زاد تھے زمیں سے ہی کام رکھا

جو آسمانی تھے آسمانوں میں رہ گئے ہیں

ظفر اقبال

اگر ہے انسان کا مقدر خود اپنی مٹی کا رزق ہونا

تو پھر زمیں پر یہ آسماں کا وجود کس قہر کے لیے ہے

غلام حسین ساجد

گرے گی کل بھی یہی دھوپ اور یہی شبنم

اس آسماں سے نہیں اور کچھ اترنے کا

حکیم منظور

بدلے ہوئے سے لگتے ہیں اب موسموں کے رنگ

پڑتا ہے آسمان کا سایا زمین پر

ہمدم کاشمیری

رت بدلی تو زمیں کے چہرے کا غازہ بھی بدلا

رنگ مگر خود آسمان نے بدلے کیسے کیسے

اکبر حیدرآبادی

ہزار راستے بدلے ہزار سوانگ رچے

مگر ہے رقص میں سر پر اک آسمان وہی

اسلم عمادی

ترس رہی تھیں یہ آنکھیں کسی کی صورت کو

سو ہم بھی دشت میں آب رواں اٹھا لائے

سالم سلیم

اٹھی ہیں میری خاک سے آفات سب کی سب

نازل ہوئی نہ کوئی بلا آسمان سے

شہزاد احمد

مری زمین پہ پھیلا ہے آسمان عدم

ازل سے میرے زمانے پہ اک زمانہ ہے

شہباز رضوی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے