Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

لالہ مادھو رام جوہر

1810 - 1889

کئی ضرب المثل شعروں کے خالق، مرزا غالب کے ہم عصر

کئی ضرب المثل شعروں کے خالق، مرزا غالب کے ہم عصر

لالہ مادھو رام جوہر کے اشعار

38.7K
Favorite

باعتبار

دیکھیے کیا دکھاتی ہے تقدیر

چپ کھڑا ہوں گناہ گاروں میں

برسات کا مزا ترے گیسو دکھا گئے

عکس آسمان پر جو پڑا ابر چھا گئے

نیند آنکھ میں بھری ہے کہاں رات بھر رہے

کس کے نصیب تم نے جگائے کدھر رہے

الٰہی کیا کھلے دیدار کی راہ

ادھر دروازے بند آنکھیں ادھر بند

کوئے جاناں میں نہ غیروں کی رسائی ہو جائے

اپنی جاگیر یہ یارب نہ پرائی ہو جائے

ٹھہری جو وصل کی تو ہوئی صبح شام سے

بت مہرباں ہوئے تو خدا مہرباں نہ تھا

آ گیا جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں

دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں

وعدہ نہیں پیام نہیں گفتگو نہیں

حیرت ہے اے خدا مجھے کیوں انتظار ہے

اس قمر کو کبھی تو دیکھیں گے

تیس دن ہوتے ہیں مہینے کے

کون ہوتے ہیں وہ محفل سے اٹھانے والے

یوں تو جاتے بھی مگر اب نہیں جانے والے

تڑپ رہا ہے دل اک ناوک جفا کے لیے

اسی نگاہ سے پھر دیکھیے خدا کے لیے

صدمے اٹھائیں رشک کے کب تک جو ہو سو ہو

یا تو رقیب ہی نہیں یا آج ہم نہیں

سمجھا لیا فریب سے مجھ کو تو آپ نے

دل سے تو پوچھ لیجیے کیوں بے قرار ہے

مختار میں اگر ہوں تو مجبور کون ہے

مجبور آپ ہیں تو کسے اختیار ہے

حال دل سنتے نہیں یہ کہہ کے خوش کر دیتے ہیں

پھر کبھی فرصت میں سن لیں گے کہانی آپ کی

دو ہی دن میں یہ صنم ہوش ربا ہوتے ہیں

کل کے ترشے ہوئے بت آج خدا ہوتے ہیں

باز آئے ہم یہ اپنا آپ چھلا لیجیے

ہر کسی کے ہاتھ میں ہے اب نشانی آپ کی

بت کہتے ہیں کیا حال ہے کچھ منہ سے تو بولو

ہم کہتے ہیں سنتا نہیں اللہ ہماری

دیکھا حضور کو جو مکدر تو مر گئے

ہم مٹ گئے جو آپ نے میلی نگاہ کی

دل میں آؤ مزے ہوں جینے کے

کھول دوں میں کواڑ سینے کے

دنیا بہت خراب ہے جائے گزر نہیں

بستر اٹھاؤ رہنے کے قابل یہ گھر نہیں

میں نے منت کبھی کی ہو تو بتا دیں زاہد

کون سے روز سفارش کو گنہ گار آیا

تم شاہ حسن ہو کے نہ پوچھو فقیر سے

ایسے بھرے مکان سے خالی گدا پھرے

ہم عشق میں ہیں فرد تو تم حسن میں یکتا

ہم سا بھی نہیں ایک جو تم سا نہیں کوئی

سب کو محفل میں نصیب ان کے نظارے ہوں گے

ہم کہیں غش میں پڑے ایک کنارے ہوں گے

تیرا قصوروار خدا کا گناہ گار

جو کچھ کہ تھا یہی دل خانہ خراب تھا

موسم باران فرقت میں رلانے کے لیے

مور دن کو بول اٹھتا ہے پپیہا رات کو

کی ترک محبت تو لیا درد جگر مول

پرہیز سے دل اور بھی بیمار پڑا ہے

استخارے کے لیے باغ میں ہم رندوں نے

بارہا دانۂ انگور کی کی ہے تسبیح

بعد شب وصال نہ دیکھوں میں داغ ہجر

یارب چراغ عمر بجھا دے ہوائے صبح

تجھ سا کوئی جہان میں نازک بدن کہاں

یہ پنکھڑی سے ہونٹ یہ گل سا بدن کہاں

منہ پر نقاب زرد ہر اک زلف پر گلال

ہولی کی شام ہی تو سحر ہے بسنت کی

ذرہ سمجھ کے یوں نہ ملا مجھ کو خاک میں

اے آسمان میں بھی کبھی آفتاب تھا

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

چھوڑ کر ہم کو ملا شمع رخوں سے جا کر

اسی قابل ہے تو اے دل کہ جلائیں تجھ کو

جب کہتے ہیں ہم کرتے ہو کیوں وعدہ خلافی

فرماتے ہیں ہنس کر یہ نئی بات نہیں ہے

ہر گھڑی کا یہ بگڑنا نہیں اچھا اے جان

روٹھنے کا بھی کوئی وقت مقرر ہو جائے

جوہرؔ تمہیں نفرت ہے بہت بادہ کشی سے

برسات میں دیکھیں گے ہم انکار تمہارا

نور بدن سے پھیلی اندھیرے میں چاندنی

کپڑے جو اس نے شب کو اتارے پلنگ پر

کٹتے کسی طرح سے نہیں ہائے کیا کروں

دن ہو گئے پہاڑ مجھے انتظار کے

کعبہ کی تو کیا اصل ہے اس کوچے سے آگے

جنت ہو تو جائے نہ گنہ گار تمہارا

حال دل یار کو محفل میں سنائیں کیوں کر

مدعی کان ادھر اور ادھر رکھتے ہیں

تھمے آنسو تو پھر تم شوق سے گھر کو چلے جانا

کہاں جاتے ہو اس طوفان میں پانی ذرا ٹھہرے

ہم بھی کچھ منہ سے جو کہہ بیٹھیں تو پھر کتنی رہے

دیکھیے اچھی نہیں یہ بد زبانی آپ کی

سینے سے لپٹو یا گلا کاٹو

ہم تمہارے ہیں دل تمہارا ہے

اس نے پھر کر بھی نہ دیکھا میں اسے دیکھا کیا

دے دیا دل راہ چلتے کو یہ میں نے کیا کیا

بال اپنے اس پری رو نے سنوارے رات بھر

سانپ لوٹے سیکڑوں دل پر ہمارے رات بھر

دل پیار کی نظر کے لیے بے قرار ہے

اک تیر اس طرف بھی یہ تازہ شکار ہے

مل رہے ہیں وہ اپنے گھر مہندی

ہم یہاں ایڑیاں رگڑتے ہیں

خاک میں دل کو ملاتے ہو غضب کرتے ہو

اندھے آئینے میں کیا دیکھو گے صورت اپنی

Recitation

بولیے