Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آہ پر اشعار

کلاسیکی شاعری کی شعریات

ایک معنی میں لفظ و معنی کی خوب صورت شعریات ہے۔ یہاں لفظوں کے ذریعہ معنی کا ایک جہان پیدا کرنے کی کوشش ملتی ہے ۔ لفظ کے برتاؤ سے ہی اچھی شاعری وجود میں آتی ہے ۔ لفظ نرا نہیں ہوتا ہے بلکہ شعرکی تعین قدرکی بنیاد ہوتا ہے۔آہ بھی ایک ایسا لفظ ہے جس کے ارد گرد کلاسیکی شاعری کا بڑا حصہ موجود ہے۔ ہجرمیں عاشق آہیں بھرتا ہے اور آہ و فغاں کا یہ سلسلہ طویل تر ہوتا جاتا ہے مگر اس کے جفا پیشہ معشوق پراس کا کچھ اثرنہیں ہوتا۔ اس چھوٹے سے انتخاب میں آہوں کا یہ درد بھرا شورسنئے۔

صحبت وصل ہے مسدود ہیں در ہائے حجاب

نہیں معلوم یہ کس آہ سے شرم آتی ہے

شاد لکھنوی

آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا

اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا

عزیز قیسی

آہ کیا کیا آرزوئیں نذر حرماں ہو گئیں

روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجئے

اثر صہبائی

ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری

کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

جگر مراد آبادی

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

رند لکھنوی

حربہ ہے عاشقوں کا فقط آہ پیچ دار

درویش لوگ رکھتے ہیں جیسے ہرن کی شاخ

مصحفی غلام ہمدانی

چمن پھونک ڈالوں گا آہ و فغاں سے

وہ میرا نشیمن جلا کر تو دیکھیں

نامعلوم

آہ اب خود دارئ اکبر کہاں

ہو گئی وہ بھی غلام آرزو

اکبر حیدری کشمیری

ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکر ناز

کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم

مخدومؔ محی الدین

درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا

آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی

غلام بھیک نیرنگ

آہ تو اب بھی دل سے اٹھتی ہے

لیکن اس میں اثر نہیں ہوتا

کرامت بخاری

نہ ہووے کیوں کے گردوں پہ صدا دل کی بلند اپنی

ہماری آہ ہے ڈنکا دمامے کے بجانے کا

عبدالوہاب یکروؔ

درد دل کتنا پسند آیا اسے

میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی

آسی غازی پوری

آہ جو دل سے نکالی جائے گی

کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی

اکبر الہ آبادی

جس کوں پیو کے ہجر کا بیراگ ہے

آہ کا مجلس میں اس کی راگ ہے

سراج اورنگ آبادی

کتاب عشق میں ہر آہ ایک آیت ہے

پر آنسوؤں کو حروف مقطعات سمجھ

عمیر نجمی

ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم

آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے

قمر جلالوی

عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا

ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

مرزا غالب

عرش تک جاتی تھی اب لب تک بھی آ سکتی نہیں

رحم آ جاتا ہے کیوں اب مجھ کو اپنی آہ پر

بیاں احسن اللہ خان

اب جہاں میں باقی ہے آہ سے نشاں اپنا

اڑ گئے دھوئیں اپنے رہ گیا دھواں اپنا

ناطق گلاوٹھی

ضبط دیکھو ادھر نگاہ نہ کی

مر گئے مرتے مرتے آہ نہ کی

امیر مینائی

گزری ہے رات مجھ میں اور دل میں طرفہ صحبت

ایدھر تو میں نے کی آہ اودھر سے وہ کراہا

میر حسن

ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے

مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے

جگر مراد آبادی

آہ کرتا ہوں تو آتے ہیں پسینے ان کو

نالہ کرتا ہوں تو راتوں کو وہ ڈر جاتے ہیں

سائل دہلوی

اے حفیظؔ آہ آہ پر آخر

کیا کہیں دوست واہ وا کے سوا

حفیظ جالندھری

وہ کون تھا وہ کہاں کا تھا کیا ہوا تھا اسے

سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو

شہریار

پوچھا اگر کسی نے مرا آ کے حال دل

بے اختیار آہ لبوں سے نکل گئی

مرزارضا برق ؔ

آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے

دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں

میر حسن

وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا

نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے

اختر انصاری

اے جنوں ہاتھ جو وہ زلف نہ آئی ہوتی

آہ نے عرش کی زنجیر ہلائی ہوتی

گویا فقیر محمد

جب سے جدا ہوا ہے وہ شوخ تب سے مجھ کو

نت آہ آہ کرنا اور زار زار رونا

میر حسن

مری آہ کا تم اثر دیکھ لینا

وہ آئیں گے تھامے جگر دیکھ لینا

جلیل مانک پوری

آہ! کل تک وہ نوازش! آج اتنی بے رخی

کچھ تو نسبت چاہئے انجام کو آغاز سے

غلام بھیک نیرنگ

بہت مضر دل عاشق کو آہ ہوتی ہے

اسی ہوا سے یہ کشتی تباہ ہوتی ہے

تعشق لکھنوی

نہ کچھ ستم سے ترے آہ آہ کرتا ہوں

میں اپنے دل کی مدد گاہ گاہ کرتا ہوں

شیخ ظہور الدین حاتم

دل پر چوٹ پڑی ہے تب تو آہ لبوں تک آئی ہے

یوں ہی چھن سے بول اٹھنا تو شیشہ کا دستور نہیں

عندلیب شادانی

کچھ درد کی شدت ہے کچھ پاس محبت ہے

ہم آہ تو کرتے ہیں فریاد نہیں کرتے

فنا نظامی کانپوری

شعر کیا ہے آہ ہے یا واہ ہے

جس سے ہر دل کی ابھر آتی ہے چوٹ

ساحر دہلوی

یاد آیا بھی تو یوں عہد وفا

آہ کی بے اثری یاد آئی

قیوم نظر

آہ کرتا ہوں تو آتی ہے پلٹ کر یہ صدا

عاشقوں کے واسطے باب اثر کھلتا نہیں

سحر عشق آبادی

تم بھول گئے مجھ کو یوں یاد دلاتا ہوں

جو آہ نکلتی ہے وہ یاد دہانی ہے

مبارک عظیم آبادی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے