آہ پر اشعار
کلاسیکی شاعری کی شعریات
ایک معنی میں لفظ و معنی کی خوب صورت شعریات ہے۔ یہاں لفظوں کے ذریعہ معنی کا ایک جہان پیدا کرنے کی کوشش ملتی ہے ۔ لفظ کے برتاؤ سے ہی اچھی شاعری وجود میں آتی ہے ۔ لفظ نرا نہیں ہوتا ہے بلکہ شعرکی تعین قدرکی بنیاد ہوتا ہے۔آہ بھی ایک ایسا لفظ ہے جس کے ارد گرد کلاسیکی شاعری کا بڑا حصہ موجود ہے۔ ہجرمیں عاشق آہیں بھرتا ہے اور آہ و فغاں کا یہ سلسلہ طویل تر ہوتا جاتا ہے مگر اس کے جفا پیشہ معشوق پراس کا کچھ اثرنہیں ہوتا۔ اس چھوٹے سے انتخاب میں آہوں کا یہ درد بھرا شورسنئے۔
آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا
اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا
آہ کیا کیا آرزوئیں نذر حرماں ہو گئیں
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجئے
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
-
موضوع : مجبوری
حربہ ہے عاشقوں کا فقط آہ پیچ دار
درویش لوگ رکھتے ہیں جیسے ہرن کی شاخ
آہ اب خود دارئ اکبر کہاں
ہو گئی وہ بھی غلام آرزو
ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکر ناز
کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم
درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا
آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی
-
موضوعات : بے قراریاور 2 مزید
آہ تو اب بھی دل سے اٹھتی ہے
لیکن اس میں اثر نہیں ہوتا
نہ ہووے کیوں کے گردوں پہ صدا دل کی بلند اپنی
ہماری آہ ہے ڈنکا دمامے کے بجانے کا
درد دل کتنا پسند آیا اسے
میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی
-
موضوعات : درداور 1 مزید
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی
جس کوں پیو کے ہجر کا بیراگ ہے
آہ کا مجلس میں اس کی راگ ہے
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے
-
موضوع : کشمکش
عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
-
موضوعات : جگجیت سنگھاور 1 مزید
عرش تک جاتی تھی اب لب تک بھی آ سکتی نہیں
رحم آ جاتا ہے کیوں اب مجھ کو اپنی آہ پر
اب جہاں میں باقی ہے آہ سے نشاں اپنا
اڑ گئے دھوئیں اپنے رہ گیا دھواں اپنا
ضبط دیکھو ادھر نگاہ نہ کی
مر گئے مرتے مرتے آہ نہ کی
گزری ہے رات مجھ میں اور دل میں طرفہ صحبت
ایدھر تو میں نے کی آہ اودھر سے وہ کراہا
ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے
مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے
آہ کرتا ہوں تو آتے ہیں پسینے ان کو
نالہ کرتا ہوں تو راتوں کو وہ ڈر جاتے ہیں
اے حفیظؔ آہ آہ پر آخر
کیا کہیں دوست واہ وا کے سوا
وہ کون تھا وہ کہاں کا تھا کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو
پوچھا اگر کسی نے مرا آ کے حال دل
بے اختیار آہ لبوں سے نکل گئی
آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے
دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں
وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے
-
موضوعات : آنسواور 1 مزید
اے جنوں ہاتھ جو وہ زلف نہ آئی ہوتی
آہ نے عرش کی زنجیر ہلائی ہوتی
مری آہ کا تم اثر دیکھ لینا
وہ آئیں گے تھامے جگر دیکھ لینا
نہ کچھ ستم سے ترے آہ آہ کرتا ہوں
میں اپنے دل کی مدد گاہ گاہ کرتا ہوں
-
موضوع : دل
دل پر چوٹ پڑی ہے تب تو آہ لبوں تک آئی ہے
یوں ہی چھن سے بول اٹھنا تو شیشہ کا دستور نہیں
کچھ درد کی شدت ہے کچھ پاس محبت ہے
ہم آہ تو کرتے ہیں فریاد نہیں کرتے
-
موضوع : درد
شعر کیا ہے آہ ہے یا واہ ہے
جس سے ہر دل کی ابھر آتی ہے چوٹ
آہ کرتا ہوں تو آتی ہے پلٹ کر یہ صدا
عاشقوں کے واسطے باب اثر کھلتا نہیں
تم بھول گئے مجھ کو یوں یاد دلاتا ہوں
جو آہ نکلتی ہے وہ یاد دہانی ہے