Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Arzoo Lakhnavi's Photo'

آرزو لکھنوی

1873 - 1951 | کراچی, پاکستان

ممتاز قبل از جدید شاعر،جگر مرادآبادی کے معاصر

ممتاز قبل از جدید شاعر،جگر مرادآبادی کے معاصر

آرزو لکھنوی کے اشعار

31.6K
Favorite

باعتبار

پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح

زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف

ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

وفا تم سے کریں گے دکھ سہیں گے ناز اٹھائیں گے

جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

بری سرشت نہ بدلی جگہ بدلنے سے

چمن میں آ کے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا

جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے

محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے

بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو

جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو

محبت وہیں تک ہے سچی محبت

جہاں تک کوئی عہد و پیماں نہیں ہے

حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور

خود بھی روئیں گے غریبوں کو رلانے والے

خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی

کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا

بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں

پہلے آتا تھا اب نہیں آتا

شوق چڑھتی دھوپ جاتا وقت گھٹتی چھاؤں ہے

با وفا جو آج ہیں کل بے وفا ہو جائیں گے

اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے

بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا

کھلنا کہیں چھپا بھی ہے چاہت کے پھول کا

لی گھر میں سانس اور گلی تک مہک گئی

دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے

الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے

جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے

دل کی ضد اس لئے رکھ لی تھی کہ آ جائے قرار

کل یہ کچھ اور کہے گا مجھے معلوم نہ تھا

تیرے تو ڈھنگ ہیں یہی اپنا بنا کے چھوڑ دے

وہ بھی برا ہے باؤلا تجھ کو جو پا کے چھوڑ دے

جس قدر نفرت بڑھائی اتنی ہی قربت بڑھی

اب جو محفل میں نہیں ہے وہ تمہارے دل میں ہے

کہہ کے یہ اور کچھ کہا نہ گیا

کہ مجھے آپ سے شکایت ہے

محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے

بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے

وہ پلٹ کے جلد نہ آئیں گے یہ عیاں ہے طرز خرام سے

کوئی گردش ایسی بھی اے فلک جو بلا دے صبح کو شام سے

کچھ تو مل جائے لب شیریں سے

زہر کھانے کی اجازت ہی سہی

دوست نے دل کو توڑ کے نقش وفا مٹا دیا

سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا

اپنی اپنی گردش رفتار پوری کر تو لیں

دو ستارے پھر کسی دن ایک جا ہو جائیں گے

ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر

اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی

کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا

وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا

دو تند ہواؤں پر بنیاد ہے طوفاں کی

یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا

جو کچھ تھا نہ کہنے کا سب کہہ گیا دیوانہ

سمجھو تو مکمل ہے اب عشق کا افسانہ

خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا

مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا

کس کام کی ایسی سچائی جو توڑ دے امیدیں دل کی

تھوڑی سی تسلی ہو تو گئی مانا کہ وہ بول کے جھوٹ گیا

معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے

دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے

ہر اک شام کہتی ہے پھر صبح ہوگی

اندھیرے میں سورج نظر آ رہا ہے

آرزوؔ جام لو جھجک کیسی

پی لو اور دہشت گناہ گئی

راہ بر رہزن نہ بن جائے کہیں اس سوچ میں

چپ کھڑا ہوں بھول کر رستے میں منزل کا پتا

ہر نفس اک شراب کا ہو گھونٹ

زندگانی حرام ہے ورنہ

سکون دل نہیں جس وقت سے اس بزم میں آئے

ذرا سی چیز گھبراہٹ میں کیا جانے کہاں رکھ دی

ڈال رہا ہے کام میں مشکل

مشکل میں کام آنے والا

ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ

کس درجہ دکھے دل کا رنگین ہے افسانہ

وائے غربت کہ ہوئے جس کے لئے خانہ خراب

سن کے آواز بھی گھر سے نہ وہ باہر نکلا

ہم کو اتنا بھی رہائی کی خوشی میں نہیں ہوش

ٹوٹی زنجیر کہ خود پاؤں ہمارا ٹوٹا

جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے

اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے اور پہروں باتیں ہوتی ہیں

نظر بچا کے جو آنسو کئے تھے میں نے پاک

خبر نہ تھی یہی دھبے بنیں گے دامن کے

برسوں بھٹکا کیا اور پھر بھی نہ ان تک پہنچا

گھر تو معلوم تھا رستہ مجھے معلوم نہ تھا

یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی

جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے

یہ گل کھل رہا ہے وہ مرجھا رہا ہے

اثر دو طرح کے ہوا ایک ہی ہے

مزا برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آ بیٹھو

سیاہی ہے سفیدی ہے شفق ہے ابر باراں ہے

مجھے رہنے کو وہ ملا ہے گھر کہ جو آفتوں کی ہے رہ گزر

تمہیں خاکساروں کی کیا خبر کبھی نیچے اترے ہو بام سے

جواب دینے کے بدلے وہ شکل دیکھتے ہیں

یہ کیا ہوا میرے چہرے کو عرض حال کے بعد

ایک دل پتھر بنے اور ایک دل بن جائے موم

آخر اتنا فرق کیوں تقسیم آب و گل میں ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے