Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رسوائی پر اشعار

رسوائی کے لفظ کا سیاق

خالص عشقیہ ہے۔ راز کے راز نہ رہنے اور عشق کا چرچہ ہو جانے سے عاشق کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رسوائی دیارعشق میں بھی ہے اور اس سے نکلنے کے بعد میخانے میں بھی ۔ کلاسیکی شاعری میں اس موضوع کو بہت تنوع اور کثرت کے ساتھ برتا گیا ہے نمونے کے طور پر ہم کچھ شعر پیش کر رہے ہیں۔

کون مصلوب ہوا حسن کا کردار کہ ہم

شہرت عشق میں بدنام ہوا یار کہ ہم

مسعود قریشی

کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے

تم بھی رسوا ہوئے آخر مجھے رسوا کر کے

نامعلوم

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی

لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے

کفیل آزر امروہوی

میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں

مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

خاطر غزنوی

کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے

جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے

انجم خیالی

ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم

مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں

اطہر نفیس

یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں

سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی

گلزار

کس قدر بد نامیاں ہیں میرے ساتھ

کیا بتاؤں کس قدر تنہا ہوں میں

انور شعور

میری رسوائی اگر ساتھ نہ دیتی میرا

یوں سر بزم میں عزت سے نکلتا کیسے

اختر شمار

ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا

ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے

خورشید ربانی

دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے

الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

آرزو لکھنوی

میری شہرت کے پیچھے ہے

ہاتھ بہت رسوائی کا

پریم بھنڈاری

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پروین شاکر

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو

افتخار عارف

تنگ آ گیا ہوں وسعت مفہوم عشق سے

نکلا جو حرف منہ سے وہ افسانہ ہو گیا

احسن مارہروی

اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل

وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی

احمد مشتاق

اس گھر کی بدولت مرے شعروں کو ہے شہرت

وہ گھر کہ جو اس شہر میں بد نام بہت ہے

مظہر امام

جو تیری بزم سے اٹھا وہ اس طرح اٹھا

کسی کی آنکھ میں آنسو کسی کے دامن میں

سالک لکھنوی

عشق جب تک نہ کر چکے رسوا

آدمی کام کا نہیں ہوتا

جگر مراد آبادی

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

صوفی تبسم

قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی

چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو

قمر جلالوی

گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال

میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی

ظہور نظر

پیار کرنے بھی نہ پایا تھا کہ رسوائی ملی

جرم سے پہلے ہی مجھ کو سنگ خمیازہ لگا

اقبال ساجد

جس جگہ بیٹھے مرا چرچا کیا

خود ہوئے رسوا مجھے رسوا کیا

داغؔ دہلوی

کہئے جو جھوٹ تو ہم ہوتے ہیں کہہ کے رسوا

سچ کہئے تو زمانہ یارو نہیں ہے سچ کا

مصحفی غلام ہمدانی

میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر

آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

اسعد بدایونی

کسی کی شخصیت مجروح کر دی

زمانے بھر میں شہرت ہو رہی ہے

احمد اشفاق

وہ جنوں کو بڑھائے جائیں گے

ان کی شہرت ہے میری رسوائی

سلیم احمد

ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے

زندگی جیتے ہیں کچھ لوگ خسارہ کر کے

ہاشم رضا جلالپوری

سر پھوڑ کے مر جائیں گے بد نام کریں گے

جس کام سے ڈرتے ہو وہی کام کریں گے

لالہ مادھو رام جوہر

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

مصطفیٰ خاں شیفتہ

لوگ کہتے ہیں کہ بد نامی سے بچنا چاہیئے

کہہ دو بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں

اکبر الہ آبادی

ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن

اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو

خواجہ میر درد

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

مرزا غالب

چاہ کی چتون مری آنکھ اس کی شرمائی ہوئی

تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی

جرأت قلندر بخش

مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو

مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں

کیف بھوپالی

پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

میر تقی میر

اذیت مصیبت ملامت بلائیں

ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

خواجہ میر درد

اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار

لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی

اقبال ساجد

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین شاکر

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

راحت اندوری

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

جس لیے آئے تھے ہم کر چلے

خواجہ میر درد

ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے

کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا

احمد ندیم قاسمی

دکھ دے یا رسوائی دے

غم کو مرے گہرائی دے

سلیم احمد

اس شہر میں تو کچھ نہیں رسوائی کے سوا

اے دلؔ یہ عشق لے کے کدھر آ گیا تجھے

دل ایوبی

رنج و غم درد و الم ذلت و رسوائی ہے

ہم نے یہ دل کے لگانے کی سزا پائی ہے

فدا کڑوی

تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط

الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

الطاف حسین حالی

رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے

حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے

خلیل تنویر

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن

تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

احمد مشتاق

اچھی خاصی رسوائی کا سبب ہوتی ہے

دوسری عورت پہلی جیسی کب ہوتی ہے

ف س اعجاز

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے