رسوائی پر اشعار
رسوائی کے لفظ کا سیاق
خالص عشقیہ ہے۔ راز کے راز نہ رہنے اور عشق کا چرچہ ہو جانے سے عاشق کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رسوائی دیارعشق میں بھی ہے اور اس سے نکلنے کے بعد میخانے میں بھی ۔ کلاسیکی شاعری میں اس موضوع کو بہت تنوع اور کثرت کے ساتھ برتا گیا ہے نمونے کے طور پر ہم کچھ شعر پیش کر رہے ہیں۔
کون مصلوب ہوا حسن کا کردار کہ ہم
شہرت عشق میں بدنام ہوا یار کہ ہم
-
موضوع : شہرت
کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے
تم بھی رسوا ہوئے آخر مجھے رسوا کر کے
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے
ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں
یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی
-
موضوعات : ماضیاور 1 مزید
میری رسوائی اگر ساتھ نہ دیتی میرا
یوں سر بزم میں عزت سے نکلتا کیسے
ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا
ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے
میری شہرت کے پیچھے ہے
ہاتھ بہت رسوائی کا
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو
تنگ آ گیا ہوں وسعت مفہوم عشق سے
نکلا جو حرف منہ سے وہ افسانہ ہو گیا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی
چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو
گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال
میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی
-
موضوع : شہرت
پیار کرنے بھی نہ پایا تھا کہ رسوائی ملی
جرم سے پہلے ہی مجھ کو سنگ خمیازہ لگا
جس جگہ بیٹھے مرا چرچا کیا
خود ہوئے رسوا مجھے رسوا کیا
کہئے جو جھوٹ تو ہم ہوتے ہیں کہہ کے رسوا
سچ کہئے تو زمانہ یارو نہیں ہے سچ کا
میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر
آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر
کسی کی شخصیت مجروح کر دی
زمانے بھر میں شہرت ہو رہی ہے
ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے
زندگی جیتے ہیں کچھ لوگ خسارہ کر کے
-
موضوع : زندگی
سر پھوڑ کے مر جائیں گے بد نام کریں گے
جس کام سے ڈرتے ہو وہی کام کریں گے
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
لوگ کہتے ہیں کہ بد نامی سے بچنا چاہیئے
کہہ دو بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں
-
موضوع : جوانی
ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن
اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
-
موضوع : مشہور اشعار
چاہ کی چتون مری آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی
مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو
مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار
لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی
-
موضوع : شہرت
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
-
موضوع : شعر
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے ہم کر چلے
ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے
کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا
-
موضوع : تنہائی
رنج و غم درد و الم ذلت و رسوائی ہے
ہم نے یہ دل کے لگانے کی سزا پائی ہے
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے
حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو