Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nasir Kazmi's Photo'

ناصر کاظمی

1925 - 1972 | لاہور, پاکستان

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا

ناصر کاظمی کے اشعار

100.1K
Favorite

باعتبار

اے یاد دوست آج تو جی بھر کے دل دکھا

شاید یہ رات ہجر کی آئے نہ پھر کبھی

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی

گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

تشریح

دوستو! آج ناصر کاظمی کے اس حسین شعر کی تشریح کرتے ہیں۔ اپنے کلام میں غم کو بیان کرنے کی جو مہارت ناصر کاظمی کو حاصل ہے اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔

اندوہناک جذبۂ دل گرفتگی کا شاعر سے کلام کرنا ایک خوبصورت اصطلاح ہے۔ شاعر تمام تر غم و آلام سے چور ہے، اس کا دل غم کے بوجھ سے بھرا ہوا ہے، اس کی زندگی کرب اور تکلیف سے یکسر بھری پڑی ہے۔ اور یہ کرب اس کی پوری زندگی پر محیط ہے۔

شعر پڑھ کر ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کا کوئی لمحہ کرب و الم سے خالی نہیں ہے، اس قدر کہ شاعر کی پوری زندگی اس غم کی نذر ہو چکی ہے، اور اسے اس سے مفر کا کوئی موقع ہی نہیں، کوئی راستہ ہی نہیں۔ اس کا پیمانۂ زندگی غم سے اس درجہ لبریز ہو چکا ہے کہ بس چھلکا ہی چاہتا ہے اور ایسے میں ایک باطنی آواز اس کی اس اندوہناک کیفیت کا گویا مذاق اڑاتی ہوئی اس سے کہتی ہے کہ یہ غم و الم جس میں آپ پوری طرح گرفتار ہو چکے ہیں اور جس سے آپ کا نکلنا محال ہے اگر آپ اس سے گھبرا چکے ہیں تو آئیے آپ کو اس کیفیت سے باہر لے جلتے ہیں۔ مگر اس خوبصورت انداز بیان میں یہ شے پنہاں ہے کہ باہر بھی اس کیفیت سے کوئی بچاؤ کی راہ نہیں ہے۔

علامہ اقبال نے ایک جگہ اس کیفیت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں اپنی تسبیح ِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ

ناصر کاظمی نے غم کے تصور کو اپنی ذات کی سطح سے اٹھا کر آفاقی رنگ عطا کر دیا اور ایسے خوبصورت پیکر تراشے کہ گویا یہ آواز ہمیں اپنے دل ہی کی آواز سنائی دیتی ہے۔

آپ اندازہ کیجئے کہ ایک شخص جو ہمہ وقت طرح طرح کے آلام سے دوچار ہے، اس کی ذہنی کیفیت کس قدر پر سوز ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کو زندگی کے سارے رنگ پھیکے، سارے گل بے رنگ و بو، اور سارے شغل بے معنی نظر آتے ہیں۔ اس کی حرکات و سکنات اس کے جذبات کی غماز ہوتی ہیں۔ ذہنی انتشار اور بے چینی حد کو پہنچ چکی ہوتی ہے اور وہ اس کیفیت اور اس اضطراب سے باہر نکلنے کی کوئی صورت ہی نہیں پاتا ہے۔ ایسے میں شاعر کی بے کلی، بے چینی، dejection خود اس کی اس کیفیت پر ترس کھا کر اس سے کہتی ہے کہ آپ اس دائمی کیفیت سے پریشان ہو چکے ہیں تو آئیے آپ کو باہر کی سیر کرا دیتے ہیں۔ مگر اس میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ باہر کی کیفیت بھی کوئی اس اندرونی کیفیت سے جداگانہ نہیں ہے۔ شاعر درد و غم کی اس سطح کا مشاہدہ کر رہا ہے جہاں اندرون اور بیرون سب یکساں ہے۔ اس کے لیے ہمیشہ ہی غموں کا اندھیرا ہے، ہر جگہ اداسی ہے، ہر گام بے بسی ہے، ہر لمحہ مایوسی ہے، ہر آن درد و اضطراب ہے۔

اس شعر کی کرافٹ میں جو تکلم کا انداز اپنایا گیا ہے وہ بجائے خود حسن ہے، جس نے غم کی کیفیت کو بیان کرنے کے نئے زاویے قائم کیے ہیں، نئے انداز وضع کیے ہیں ۔

اس حسین شعر میں شاعر نے اپنی زندگی کی دائمی غم ناک حالت کو بیان کرنے کا خوبصورت طریقہ اختیار کیا ہے اور یوں بھی ناصر کاظمی نے درد و غم کو جس طرح شعری جامہ پہنایا ہے اس کی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے ۔

سہیل آزاد

نیند آتی نہیں تو صبح تلک

گرد مہتاب کا سفر دیکھو

کون اچھا ہے اس زمانے میں

کیوں کسی کو برا کہے کوئی

سورج سر پہ آ پہنچا

گرمی ہے یا روز جزا

نہ ملا کر اداس لوگوں سے

حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

تشریح

دوستو! آج ناصر کاظمی کے ایک خوب صورت شعر کی تشریح کرتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے شاعری کو آسان استعاروں اور آسان الفاظ کے وہ پیکر عطا کئے کہ جن کا ثانی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ناصر کاظمی کے اشعار کے الفاظ زیور کی طرح ہیں جو دل فریب حسن عطا کرتے ہیں۔ سادہ اور سہل انداز میں دنیا جہان کے مفہوم ادا کرنے کا ہنر کوئی ناصر کاظمی سے سیکھے۔

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ تو بہت نازک اندام، نازک مزاج، نازک خیال ہے۔ تیری یہ نازکی اور سادگی تیرا حسن ہے۔ تیری شوخی، تیری شرارت، تیری شگفتگی تیرا لاوبالی پن، یہ سب اوصاف تیرے مزاج کا حصہ ہیں، جن کو ذرا سا بھی ملال، رنج اور درد پراگندہ کر سکتا ہے۔ تیرے حسن کو دکھ درد کی چھایا بھی میلا کر سکتی ہے، غم کا معمولی سا اثر بھی گندہ کر سکتا ہے اور رنج و تفکر بدرنگ کر سکتے ہیں۔ اس لیے تیرے حسن کی خیر اسی میں ہے کہ تو مجھ جیسے اداس لوگوں سے رسم و راہ بند کردے۔ بقول شاعر یہ غم کا غبار تیرے حسن کو خراب کرنے کے لئے کافی ہے۔

شعر کے ظاہری حسن کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ معنوی حسن کو بھی دیکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک نکتہ جو اس شعر میں پوشیدہ ہے وہ شاعر کا غم زدہ اور ملول ہونا ہے اور اس کے محبوب کا شگفتہ مزاج، حسین اور سادہ لوح ہونا ہے۔ گویا یہ سادہ مزاج محبوب جانتا ہی نہیں ہے کہ شاعر جیسے غمزدہ انسان سے مل کر اور تو کیا ہی ہوگا البتہ خود اس کا حسن ماند پڑ جائے گا۔ اس کا حسنِ ظاہری جو پھول کی طرح تروتازہ ہے، چاندنی کی طرح سادہ ہے اور اوس کی طرح نازک ہے، ذرا سی بھی آلودگیٔ الم برداشت نہیں کر سکے گا۔ اس خوبصورت انداز میں شاعر خود کو غمزدہ رنجیدہ اور ملول بتانے اور اپنے محبوب کو نازک مزاج شگفتہ اور حسین اور معصوم بتانے میں کامیاب ہے۔

سہیل آزاد

نئی دنیا کے ہنگاموں میں ناصرؔ

دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی

میں اس جانب تو اس جانب

بیچ میں پتھر کا دریا تھا

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا

ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے

وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا

جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ

وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں

اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں

آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

تو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری

مجھ کو اک اشک صبح گاہی دے

آج تو بے سبب اداس ہے جی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

ترے بغیر بھی خالی نہیں مری راتیں

ہے ایک سایہ مرے ساتھ ہم نشیں کی طرح

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی

ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے

پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا

زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

تیری مجبوریاں درست مگر

تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

تشریح

دوستو آج ناصر کاظمی کے اس حسین شعر کی تشریح کرتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے شاعری میں جس تخیل اور جس ترتیب الفاظ کی بے مثال آمیزش کی ہے وہ دل پر اثر کرنے کی تمام تر صلاحیت رکھتی ہے۔ ناصر کاظمی نے اس شعر میں نہایت آسان الفاظ میں فراق یار کا افسانہ سنا دیا ہے ۔ وہ یار وہ محبوب جو ہمہ وقت ان کے اوسان پر حاوی ہے اور جو ایک لمحے کے لئے بھی ان کے ذہن و دماغ سے نہیں اترا ہے۔ محبوب سے ملاقات کو اس شعر میں ایک ایسی تقریب کی طرح بیان کیا گیا ہے کہ جس کے لیے نئے لباس کا تعین اور لباس کے ساتھ ساتھ چہرے کی زیبائش کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اپنے محبوب سے ملاقات کے لیے جس خوش دلی کے ساتھ شاعر خود کو تیار کرتا ہے وہی خوش دلی یاس اور اداسی میں بدل جاتی ہے، جب شاعر کا محبوب غیر موجود ہوتا ہے ۔

یہ شعر فراق کا فسانہ تو سناتا ہی ہے، اک ایسا یاس کا منظر نامہ بھی پیش کرتا ہے جس کے اثرات سننے والے یا پڑھنے والے کو بھی مغموم کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس گھڑی شاعر کا محبوب شہر میں موجود تھا اور شاعر کی ملاقات ہوا کرتی تھی اس خوشی کا کیا ٹھکانہ ہو سکتا ہے مگر افسوس صد افسوس جب اس کا محبوب شہر چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے جانے کے ساتھ شاعر کے لیے شہر کی تمام رونقیں ختم ہو گئیں، شہر کا عالم ہی بدل گیا، شہر کا رنگ بے رنگی میں تبدیل ہوگیا۔ شاعر اس قدر مغموم ہے کہ نہ اس کا جی باہر نکلنے کو چاہ رہا ہے اور نہ اپنے لباس کی اور اپنے بالوں کی آرائش و زیبائش کی طرف متوجہ ہونے کو ۔

یہ منظر نامہ اتنا حقیقی ہے کہ ہم بھی گویا اس کرب اور اس تکلیف کو خود اپنے دل میں محسوس کر سکتے ہیں۔ بارہا ہم بھی کہیں نہ کہیں اس تکلیف سے گزرے ضرور ہیں۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ جہاں جہاں ہم اپنے دوست اور اپنے یار کے ساتھ گھومتے رہے ہیں، جن پارکوں اور ریستورانوں میں وقت گزاری کی گئی ہے وہ سب یکسر بے رنگ اور بے روح لگنے لگتے ہیں جب ہمارا دوست اور ہمارا یار ہم سے بچھڑ جاتا ہے یا وقتی طور ہم سے دور چلا جاتا ہے ۔

ایک اور اہم بات جو اس شعر کو پڑھتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ شاعر نے الفاظ کا جو تعین کیا ہے وہ اس قدر آسان ہے کہ جس نے شعر کے ظاہری حسن کو غیرمعمولی طور پر دمکا دیا ہے۔ یہ دمک اتنی تیز ہے کہ اس کے پیچھے کرب ناک منظر کی جو سیربین چل رہی ہے اسے صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ اگر سامع یا قاری اس کرب تک پہنچ جاتا ہے تو اس شعر کا حق ادا ہوجاتا ہے ۔

اپنے محبوب کے بنا شہر سے گزرنے کا تصور ہی بہت روح فرسا ہے۔ جو کسی بھی حساس شخص کو آبدیدہ کر سکتا ہے ۔

اسی تصور کو ڈاکٹر بشیر بدر اس طرح بیان کرتے ہیں -

انہی راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے

مجھے روک روک پوچھا تیرا ہمسفر کہاں ہے

ناصر کاظمی نے درد و غم کرب و بےکلی کو جس آسان انداز میں بیان کر آفاقی رنگ دیا ہے اس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے ۔

سہیل آزاد

حال دل ہم بھی سناتے لیکن

جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا

تجھ بن ساری عمر گزاری

لوگ کہیں گے تو میرا تھا

جرم امید کی سزا ہی دے

میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے

پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی

اڑے جاتے ہیں اوراق خزانی

انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں

جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے

تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا

عمر بھر جس کا راستا دیکھا

ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی

مزے ملے انہیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے

بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے

تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا

او میرے مصروف خدا

اپنی دنیا دیکھ ذرا

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

او پچھلی رت کے ساتھی

اب کے برس میں تنہا ہوں

تشریح

دوستو !آج ناصر کاظمی کے اس سادہ اور لطیف شعر کی تشریح کرتے ہیں اور اس کے اجزا کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اردو شاعری میں اداسی، ہجر اور غم کو نئے زاویوں سے بیان کرنے پرکھنے، برتنے اور بیان کرنے کا جو فن ناصر کاظمی کو حاصل ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ وہ استعارے ہیں جو ناصر کاظمی نے غزل کی پیکر تراشی میں استعمال کیے بلکہ ایسے ہی جیسے کوئی ماہر معمار مستعمل اشیاء سے عمارت کی بناوٹ میں ایک نیا حسن پیدا کر دیتا ہے۔ ناصر کاظمی نے رتوں، موسموں، تنہائی، دکھ، سفر، دریا، پیڑ اور اسی طرح کی دوسری علامتیں اپنے جذبات کے اظہار میں کچھ اس طرح استعمال کی ہیں کہ ان علامتوں کا ہر رنگ ہی دوبالا ہوگیا، نیا ہوگیا۔

دوستو! یہ ایک سادہ سا شعر ہے جس میں بظاہر شاعر اپنے بچھڑے ساتھی سے مخاطب ہے، اپنے محبوب سے خطاب کر رہا ہے، اس کو یاد کر رہا ہے اور اس کو اپنے دکھ بھرے دل کی بپتا سنا رہا ہے۔ اس کو بتا رہا ہے کہ ایک حسین عرصہ جو اس نے گزارا ہے، اس کی دلخراش یادیں اب سوائے بے چینی کے اور کچھ نہیں دیتی ہیں سوائے بے کلی، بے قراری کے کچھ حاصل ہونے نہیں دیتی ہیں۔ اس شعر میں جو انداز تکلم ہے وہ بھی بہت پرسوز، پر درد ہے۔ شاعر اپنے محبوب کو جس رقّت ِ قلب اور جس حسرت و یاس کے ساتھ مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ اے میرے بچھڑے ہوئے دوست! اے میرے حسین رتوں کے ساتھی! اے میرے خوبصورت لمحوں کے محرم ! اے میرے شاندار ایّام کے گواہ ! آ اور میرا حال زار بھی دیکھ ! کہ اس رت میں، اس موسم میں، اس برس میں میٙں تیرے بنا کتنا تنہا ہوں، کتنا اداس ہوں، کتنا ملول ہوں، تجھے یاد کر کے کتنا بے کل اور بے چین ہوں۔ وہ بہت حسین وقت تھا، جو تیرے ساتھ گزارا گیا تھا۔ وہ وقت اب یاد آ آ کر مجھے تڑپا رہا ہے، بے چین کر رہا ہے، بے قرار رہا ہے اور میں سوائے اس غم سے تڑپنے کے کچھ بھی نہیں کر سکتا ہوں۔ ناصر کاظمی کے کلام میں یہ عناصر بہت شدت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ تمام دکھ درد کبھی خطاب کے انداز میں، کبھی تکلّم کے انداز میں، تو کبھی خود کلامی کے انداز میں نظر آتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے سادہ سے انداز سے درد و الم کی جو تصویر بنائی ہے، اس کا ثانی نہیں ملتا ہے۔

اس مضمون کو شمیم عباس نے اس طرح ادا کیا ہے :

عمر گزر جاتی ہے قصّے رہ جاتے ہیں

پچھلی رت کے بچھڑے ساتھی یاد آتے ہیں

اور غوث سیوانی نے جب اس مضمون پر غور کیا تو کچھ اس طرح ادا کیا ۔

ساون رت اور اڑتی پروا تیرے نام

دھوپ نگر سے ہے یہ تحفہ تیرے نام

یوں تو ہجرو غم شاعری کا مستقل مضمون رہا ہے مگر جس سرلتا سے ناصر کاظمی اس کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کا جواب نہیں ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ افسانۂ درد سنا رہے ہیں اور ان کا محبوب، جو اگرچہ ان کے ساتھ نہیں ہے مگر اس کو سن رہا ہے اور وہ یہ سارا ماجرا بیان کر کے اپنے دل کا بوجھ اتار رہے ہیں۔

بشر نواز نے کہا تھا:

ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے پیکر میرا

ایک پیکر میں کہاں قید ہے پیکر میرا

یعنی یہ کہ یہ دکھ درد کا قصہ تو ہمیشہ سے ہے مگر اس کے shades ہر شاعر نے اپنے اپنے طور پر ادا کیے ہیں، برتے ہیں۔ ،دیکھے ہیں، سمجھے ہیں، اور ادا کیے ہیں۔ اس خوبصورت شعر میں ناصر کاظمی نے جو قصۂ غم سنایا ہے وہ اگرچہ بہت سادہ ہے مگر دل میں اتر جانے والا ہے۔ بہت معصومیت سے بھرا ہے۔ شاعر ایام گزشتہ کی یادوں سے اس قدر پریشان ہے کہ اس کو لمحہ لمحہ یہ یاد ماضی پریشان کر رہی ہے اور سوائے غم زدہ ہونے کے وہ کچھ نہیں کر سکتا ہے۔P.B. Shelley اے اپنی شہرہ آفاق نظم STANZAS WRITTEN IN DEJECTION NEAR NAPLES میں ایک جگہ لکھا ہے ۔

   Alas! I have nor hope nor health,

         Nor peace within nor calm around,

      Nor that content surpassing wealth

      The sage in meditation found,

         And walked with inward glory crowned—

      Nor fame, nor power, nor love, nor leisure.

         Others I see whom these surround—

      Smiling they live, and call life pleasure;

To me that cup has been dealt in another measure

کس طرح ناصر کاظمی کا یہ سادہ سا شعر دکھ، درد،غم اور الم کی پرتیں کھولتا ہوا نظر آتا ہے۔

سہیل آزاد

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

رات کتنی گزر گئی لیکن

اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں

آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے

پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی

شور برپا ہے خانۂ دل میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

ذرا سی بات سہی تیرا یاد آ جانا

ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی

اپنی دھن میں رہتا ہوں

میں بھی تیرے جیسا ہوں

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے

بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل

تشریح

دوستو آج ناصر کاظمی کے ایک خوبصورت شعر کی تشریح کرتے ہیں، جس میں شاعر ایک انوکھے انداز میں اپنے محبوب سے اس کی بے اعتنائی، بے وفائی اور بے زاری کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ناصر کاظمی کے کلام میں آسان اور سہل انداز میں انسانی زندگی کے بیشتر معاملات کو بیان کیا گیا ہے، عشق کے مضامین کو پیش کیا گیا ہے، ہجر و وصال کے تاثرات کو بہت سادگی اور منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ناصر کاظمی کے اکثر شعروں میں یاد، پھول، رات، گلی، وحشت، تنہائی اور اداسی کے استعاروں سے بہت وسیع معنی کشید کرنے کا بے مثال اور لاثانی کام لیا گیا ہے۔ ان کے یہاں وحشت اور اداسی پوری زندگی پر محیط نظر آتی ہے، راستے اور گلیاں ان سے ہم کلام نظر آتے ہیں، پھول کی شگفتگی، یادوں کا کرب، بیزاری، بے کلی اور اداسی کے رنگ ان کو بہت تڑپاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نوسٹالجیا کا عنصر بہت نمایاں ہے اور اشعار میں یا تو تکلم کا لہجہ ہے یا خود کلامی کا سا انداز ہے جو ہر سننے اور پڑھنے والے پر جادو سا کردیتا ہے۔ اور ہر قاری یا سامع بقول غالب یہی سمجھتا ہے کہ ---

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

اس شعر میں بھی شاعر اپنے بے وفا دوست کے ہجر میں مبتلا نظر آتے ہیں اور اس کو اپنے دل کا ماجرا کچھ اس انداز میں سناتے ہیں کہ اگر ذرا بھی اس کو پاس ِ وفا ہے تو اس کو شاعر کی اس کیفیت پر بہت رنج ہو گا۔ شاعر اپنے بچھڑے ہوئے دوست، اپنے محبوب، اپنے ساتھی سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تو میری حدود ِ زندگی سے دور تو جا رہا ہے مگر یہ خیال رکھ کہ تاحدّ نظر تیری یاد بچھی ہوئی ہے۔ تجھے جب مجھ سے اتنی نفرت ہے کہ میری حدود سے اور میرے قرب سے بھی دور نکل رہا ہے تو یہ بھی خیال رکھ کہ جن راستوں سے ہو کر تُو گزر رہا ہے اور دور جا رہا ہے وہ سارے راستے تیری خوش نما یادوں سے مزین ہیں، ان پر تیری یادیں بچھی ہوئی ہیں۔ تیرے قدم کہیں ان یادوں پر نہ پڑ جائیں کہ یہ یادیں تو ان راستوں پر دور دور تک موجود ہیں ۔ تجھے مجھ سے نفرت اور بیزاری تو ہے، مگر میرے حلقئہ قرُب سے دور نکل جانا آسان نہیں ہے۔ آخر تو کن راہوں سے ہو کر مجھ سے دور جا سکے گا جب کہ سارے ہی راستے میری یادوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ کس طرح اپنے قدم ان یادوں سے بچا بچا کر نہ رکھ سکے گا جب کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے ۔ جس طرح میری زندگی کی حدود سے نکل کر دور جانا ممکن نہیں ہے اسی طرح تیرا میرے گرفت ِ خیال سے بھی دور جانا ممکن نہیں ہے۔

شاعر کا یہ شعر اس کے ہرجائی محبوب سے گلہ ہے، اس کی فریاد کا ایک انوکھا انداز ہے۔ اس کے ہجر کی ایک دل خراش تصویر ہے ۔ شاعر اپنے محبوب سے بہت محبت کرتا ہے۔ آخر سب اپنے محبوب سے بے انتہا محبت کرتے ہیں، سب اپنے محبوب کو بہت چاہتے ہیں، اپنے محبوب سے دوری بہت شاق گزرتی ہے، بہت تکلیف پہنچاتی ہے، بہت مشکلات کھڑی کر دیتی ہے، دن کو سکون ہوتا ہے نہ رات کو آرام ہوتا ہے، زندگی عجب سی بے کلی میں زندگی گزرتی ہے ۔ انسان اپنی زندگی کے تمام کام تو انجام دیتا ہے، مگر اس کا مرکز ِ خیال کچھ اور ہی ہوتا ہے وہ کسی اور دھُن میں ہوتا ہے۔ بقول آشفتہ چنگیزی :

الزام لگاتا ہے یہی ہم پہ زمانہ

تصویر بناتے ہیں کسی اور جہاں کی

شاعر بھی اپنے محبوب کو یاد کرتا ہے، یاد ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی یادوں میں غرق ہے اور اس سے کہتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان اور اتنا سہل نہیں ہے کہ تم میرے خیال سے دور نکل سکوں گزر سکو۔ جن راہوں سے گزر کر تم میری دنیا سے دور جانا چاہتے ہوں وہ سب راہیں تمہاری یادوں کے حسین اور نازک انبار رکھتی ہیں۔ تم آخر کس طرح ان یادوں کو پامال کیے بنا گزر سکو گے !! آخر تم کس طرح میری زندگی سے، میرے تخیل سے، میری سوچ و فکر سے دور جا سکو گے !! پھر تم کس طرح مجھ سے بے وفائی کر سکو گے ؟ جب کہ میری زندگی کا ہر لمحہ ہر پل تمہاری یاد سے مزین ہے، تمہاری یاد سے دمک رہا ہے، تمہاری یاد سے فروزاں ہے، تمہاری یاد سے تاباں ہے، تمہاری یاد سے مہک رہا ہے ۔

شعر کے ظاہری حسن پر بھی جو کچھ کہا جاسکتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ جس انداز تکلم سے شاعر نے کام لیا ہے اور جن آسان الفاظ سے اس حقیقت کو بیان کیا ہے وہ بہت اچھوتا ہے ۔

سہیل آزاد

میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہوں

تو کہاں تک چلے گا میرے ساتھ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے