Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غم پر اشعار

غم زندگی میں ایک مستقل

وجود کی حیثیت سے قائم ہے اس کے مقابلے میں خوشی کی حیثیت بہت عارضی ہے ۔ شاعری میں غمِ دوراں ، غمِ جاناں ، غمِ عشق ، غمِ روزگا جیسی ترکیبیں کثرت کے سا تھ استعمال میں آئی ہیں ۔ شاعری کا یہ حصہ دراصل زندگی کے سچ کا ایک تکلیف دہ بیانیہ ہے۔ ہمارا یہ انتخاب غم اوردکھ کے وسیع ترعلاقے کی ایک چھوٹی سی سیر ہے۔

ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں

اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی

ساحر لدھیانوی

دل دبا جاتا ہے کتنا آج غم کے بار سے

کیسی تنہائی ٹپکتی ہے در و دیوار سے

اکبر حیدرآبادی

سوائے رنج کچھ حاصل نہیں ہے اس خرابے میں

غنیمت جان جو آرام تو نے کوئی دم پایا

حیدر علی آتش

دولت غم بھی خس و خاک زمانہ میں گئی

تم گئے ہو تو مہ و سال کہاں ٹھہرے ہیں

محمود ایاز

یہ کس مقام پہ لائی ہے زندگی ہم کو

ہنسی لبوں پہ ہے سینے میں غم کا دفتر ہے

حفیظ بنارسی

غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا

میں تو غم سے ہی بے مثال ہوا

حسن نعیم

اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے

وسیم بریلوی

غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ

مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے

شکیل بدایونی

غم دے گیا نشاط شناسائی لے گیا

وہ اپنے ساتھ اپنی مسیحائی لے گیا

جنید حزیں لاری

مصیبت اور لمبی زندگانی

بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

مضطر خیرآبادی

وہ بھلا کیسے بتائے کہ غم ہجر ہے کیا

جس کو آغوش محبت کبھی حاصل نہ ہوا

حبیب احمد صدیقی

یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں

غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے

مبارک عظیم آبادی

وہ تعلق ہے ترے غم سے کہ اللہ اللہ

ہم کو حاصل ہو خوشی بھی تو گوارا نہ کریں

علیم اختر مظفر نگری

اے غم زندگی نہ ہو ناراض

مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی

عبد الحمید عدم

بے درد مجھ سے شرح غم زندگی نہ پوچھ

کافی ہے اس قدر کہ جیے جا رہا ہوں میں

ہادی مچھلی شہری

غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں

ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے

عزیز حامد مدنی

شربت کا گھونٹ جان کے پیتا ہوں خون دل

غم کھاتے کھاتے منہ کا مزہ تک بگڑ گیا

یگانہ چنگیزی

دل گیا رونق حیات گئی

غم گیا ساری کائنات گئی

جگر مراد آبادی

غم جہان و غم یار دو کنارے ہیں

ادھر جو ڈوبے وہ اکثر ادھر نکل آئے

ارشد عبد الحمید

ہمیں دنیا میں اپنے غم سے مطلب

زمانے کی خوشی سے واسطا کیا

علیم اختر مظفر نگری

جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی

جب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی

فیض احمد فیض

جمع ہم نے کیا ہے غم دل میں

اس کا اب سود کھائے جائیں گے

جون ایلیا

یہ آس بہت ہے کہ ترے دست ستم سے

جتنے بھی ملے گھاؤ ہیں بھر جائیں گے اک دن

عزیز عادل

عظیم لوگ تھے ٹوٹے تو اک وقار کے ساتھ

کسی سے کچھ نہ کہا بس اداس رہنے لگے

اقبال اشہر

ہائے کتنا لطیف ہے وہ غم

جس نے بخشا ہے زندگی کا شعور

چندر پرکاش جوہر بجنوری

غموں پر مسکرا لیتے ہیں لیکن مسکرا کر ہم

خود اپنی ہی نظر میں چور سے معلوم ہوتے ہیں

مظفر حنفی

اب کارگہ دہر میں لگتا ہے بہت دل

اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے

مجروح سلطانپوری

زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم

یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے

حفیظ ہوشیارپوری

الفت کا ہے مزہ کہ اثرؔ غم بھی ساتھ ہوں

تاریکیاں بھی ساتھ رہیں روشنی کے ساتھ

اثر اکبرآبادی

تم سے اب کیا کہیں وہ چیز ہے داغ غم عشق

کہ چھپائے نہ چھپے اور دکھائے نہ بنے

دتا تریہ کیفی

غموں پر مسکرا لیتے ہیں لیکن مسکرا کر ہم

خود اپنی ہی نظر میں چور سے معلوم ہوتے ہیں

مظفر حنفی

فکر جہان درد محبت فراق یار

کیا کہئے کتنے غم ہیں مری زندگی کے ساتھ

اثر اکبرآبادی

اگر موجیں ڈبو دیتیں تو کچھ تسکین ہو جاتی

کناروں نے ڈبویا ہے مجھے اس بات کا غم ہے

دواکر راہی

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

مسرور انور

پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر

حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا

حمایت علی شاعر

غم دل اب کسی کے بس کا نہیں

کیا دوا کیا دعا کرے کوئی

ہادی مچھلی شہری

ساری دنیا کے رنج و غم دے کر

مسکرانے کی بات کرتے ہو

جاوید قریشی

لذت غم تو بخش دی اس نے

حوصلے بھی عدمؔ دیے ہوتے

عبد الحمید عدم

غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس

سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

خمار بارہ بنکوی

ہر تفصیل میں جانے والا ذہن سوال کی زد پر ہے

ہر تشریح کے پیچھے ہے انجام سے ڈر جانے کا غم

عزم بہزاد

ہائے وہ راز غم کہ جو اب تک

تیرے دل میں مری نگاہ میں ہے

جگر مراد آبادی

اک اک قدم پہ رکھی ہے یوں زندگی کی لاج

غم کا بھی احترام کیا ہے خوشی کے ساتھ

کیفی بلگرامی

ارے او آسماں والے بتا اس میں برا کیا ہے

خوشی کے چار جھونکے گر ادھر سے بھی گزر جائیں

ساحر لدھیانوی

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یارب کئی دیے ہوتے

مرزا غالب

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

احمد فراز

یہی ہے دور غم عاشقی تو کیا ہوگا

اسی طرح سے کٹی زندگی تو کیا ہوگا

فارغ بخاری

شدت غم سے کوئی غم بھی نہیں ہو پایا

جانے والے ترا ماتم بھی نہیں ہو پایا

قمر عباس قمر

یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے

یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

جمال احسانی

اب سنگ باریوں کا عمل سرد پڑ گیا

اب اس طرف بھی رنج مرے ٹوٹنے کا ہے

عقیل نعمانی
بولیے