شراب پر اشعار
اگر آپ کو بس یوں ہی
بیٹھے بیٹھے ذرا سا جھومنا ہے تو شراب شاعری پر ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔ آپ محسوس کریں گے کہ شراب کی لذت اور اس کے سرور کی ذرا سی مقدار اس شاعری میں بھی اتر آئی ہے ۔ یہ شاعری آپ کو مزہ تو دے گی ہی ،ساتھ میں حیران بھی کرے گی کہ شراب جو بظاہر بے خودی اور سرور بخشتی ہے، شاعری میں کس طرح معنی کی ایک لامحدود کائنات کا استعارہ بن گئی ہے ۔
ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں
زاہد شراب ناب ہو یا بادۂ طہور
پینے ہی پر جب آئے حرام و حلال کیا
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
تشریح
یہ شعر معنی اور تلازمات دونوں کے اعتبار سے دلچسپ ہے۔ شعر میں وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جنہیں اردو غزل کی روایت کا خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً زاہدِ شراب، کافر، ایمان۔ مگر معنی کی سطح پر ذوقؔ نے طنزیہ لہجے سے جو بات پیدا کی ہے وہ قاری کو چونکا دیتی ہے۔ شعر میں زاہد کی مناسبت سے شراب، کافر کی مناسبت سے ایمان کے علاوہ پینے، پانی اور بہنے سے جو کیفیت پیدا ہوئی ہے وہ اپنے اندر میں ایک شاعرانہ کمال ہے۔ زاہد اردو غزل کی روایت میں ان کرداروں میں سے ایک ہے جن پر شاعروں نے کھل کر طنز کئے ہیں۔
شعر ی کردار زاہد سے سوال پوچھتا ہے کہ شراب پینے سے آدمی کافر کیسے ہوسکتا ہے، کیا ایمان اس قدر کمزور چیز ہوتی ہے کہ ذرا سے پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔ اس شعر کے بین السطور میں جو زاہد پر طنز کیا گیا ہے وہ ’’ڈیڑھ چلو‘‘ پانی سے ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی میں نے تو ذرا سی شراب پی لی ہے اور تم نے مجھ پر کافر ہونے کا فتویٰ صادر کیا۔ کیا تمہاری نظر میں ایمان اس قدر کمزور شےہے کہ ذرا سی شراب پینے سے ختم ہوتا ہے۔
شفق سوپوری
پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی
دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی
-
موضوع : واعظ
کیا جانے شیخ قدر ہماری شراب کی
ہر گھونٹ میں پڑی ہوئی رحمت خدا کی ہے
مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں
گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں
زاہد کو رٹ لگی ہے شراب طہور کی
آیا ہے میکدے میں تو سوجھی ہے دور کی
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
-
موضوعات : ابر شاعریاور 1 مزید
رندوں کے ہاتھ سے نہیں ٹوٹی یہ ساقیا
نشے میں چور ہو گئی بوتل شراب کی
مے نہ ہو بو ہی سہی کچھ تو ہو رندوں کے لئے
اسی حیلہ سے بجھے گی ہوس جام شراب
-
موضوع : رند
اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری
خدا سے جب نہیں چوری تو پھر بندے سے کیا چوری
آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے
سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ
مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے
-
موضوع : آنسو
اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
-
موضوعات : مشہور اشعاراور 2 مزید
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
-
موضوع : آدمی
بے پیے شیخ فرشتہ تھا مگر
پی کے انسان ہوا جاتا ہے
-
موضوع : مے کشی
زبان ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا
میں کیسے بن پئے لے لوں خدا کا نام اے ساقی
عدمؔ روز اجل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں
مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا
ہماری کشتیٔ توبہ کا یہ ہوا انجام
بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی
-
موضوع : توبہ
زاہد امید رحمت حق اور ہجو مئے
پہلے شراب پی کے گناہگار بھی تو ہو
بجا کہ ہے پاس حشر ہم کو کریں گے پاس شباب پہلے
حساب ہوتا رہے گا یا رب ہمیں منگا دے شراب پہلے
تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے
کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں
تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے
مشکل ہے امتیاز عذاب و ثواب میں
پیتا ہوں میں شراب ملا کر گلاب میں
بے پئے ہی شراب سے نفرت
یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے
شراب بند ہو ساقی کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
جس مصلے پہ چھڑکئے نہ شراب
اپنے آئین میں وہ پاک نہیں
کب پلاوے گا تو اے ساقی مجھے جام شراب
جاں بلب ہوں آرزو میں مے کی پیمانے کی طرح
تکیہ ہٹتا نہیں پہلو سے یہ کیا ہے بیخودؔ
کوئی بوتل تو نہیں تم نے چھپا رکھی ہے
کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا
پوچھئے مے کشوں سے لطف شراب
یہ مزا پاکباز کیا جانیں
شیشے کھلے نہیں ابھی ساغر چلے نہیں
اڑنے لگی پری کی طرح بو شراب کی
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
ترا شباب رہے ہم رہیں شراب رہے
یہ دور عیش کا تا دور آفتاب رہے
مانیں جو میری بات مریدان بے ریا
دیں شیخ کو کفن تو ڈبو کر شراب میں
پیتا ہوں جتنی اتنی ہی بڑھتی ہے تشنگی
ساقی نے جیسے پیاس ملا دی شراب میں
شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے
یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا
تشریح
جبیں یعنی ماتھا۔ جبیں پر شکن ڈالنے کے کئی معنی ہیں۔ جیسے غصہ کرنا، کسی سے روکھائی سے پیش آنا وغیرہ۔ شاعر اپنے ساقی یعنی محبوب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ شراب ایک مسکراتی ہوئی چیز ہے اور اسے کسی کو دیتے ہوئے ماتھے پر شکن لانا اچھی بات نہیں کیونکہ اگر ساقی ماتھے پر شکن لاکر کسی کو شراب پلاتا ہے تو پھر اس کا اصلی مزہ جاتا رہتا ہے۔ اس لئے ساقی پر لازم ہے کہ وہ دستورِ مے نے نوشی کا لحاظ کرتے ہوئے پلانے والے کو شراب مسکرا کر پلائے۔
شفق سوپوری
خالی سہی بلا سے تسلی تو دل کو ہو
رہنے دو سامنے مرے ساغر شراب کا
درد سر ہے خمار سے مجھ کو
جلد لے کر شراب آ ساقی
-
موضوعات : درداور 1 مزید
مجھے توبہ کا پورا اجر ملتا ہے اسی ساعت
کوئی زہرہ جبیں پینے پہ جب مجبور کرتا ہے
واعظ کی آنکھیں کھل گئیں پیتے ہی ساقیا
یہ جام مے تھا یا کوئی دریائے نور تھا
-
موضوعات : ساقیاور 1 مزید
اذاں ہو رہی ہے پلا جلد ساقی
عبادت کریں آج مخمور ہو کر
منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر
جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے
-
موضوع : واعظ
جناب شیخ کو سوجھے نہ پھر حرام و حلال
ابھی پئیں جو ملے مفت کی شراب کہیں
مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے
-
موضوعات : جوانیاور 1 مزید