Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shahzad Ahmad's Photo'

شہزاد احمد

1932 - 2012 | لاہور, پاکستان

نئی اردو غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں

نئی اردو غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں

شہزاد احمد کے اشعار

24.6K
Favorite

باعتبار

چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک

لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے

گزرنے ہی نہ دی وہ رات میں نے

گھڑی پر رکھ دیا تھا ہاتھ میں نے

یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمہاری باتوں کو

اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے

ہمارے پیش نظر منزلیں کچھ اور بھی تھیں

یہ حادثہ ہے کہ ہم تیرے پاس آ پہنچے

سب کی طرح تو نے بھی مرے عیب نکالے

تو نے بھی خدایا مری نیت نہیں دیکھی

حوصلہ ہے تو سفینوں کے علم لہراؤ

بہتے دریا تو چلیں گے اسی رفتار کے ساتھ

ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب

یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا

آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو

منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی

یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں

دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے

جب اس کی زلف میں پہلا سفید بال آیا

تب اس کو پہلی ملاقات کا خیال آیا

نیند آئے تو اچانک تری آہٹ سن لوں

جاگ اٹھوں تو بدن سے تری خوشبو آئے

شوق سفر بے سبب اور سفر بے طلب

اس کی طرف چل دیے جس نے پکارا نہ تھا

اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں

لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے

واقعہ کچھ بھی ہو سچ کہنے میں رسوائی ہے

کیوں نہ خاموش رہوں اہل نظر کہلاؤں

میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا

دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے

کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں

تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے

جواز کوئی اگر میری بندگی کا نہیں

میں پوچھتا ہوں تجھے کیا ملا خدا ہو کر

جہاں میں منزل مقصود ڈھونڈنے والے

یہ کائنات کی تصویر ہی خیالی ہے

دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر

آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں

تمہاری آرزو میں میں نے اپنی آرزو کی تھی

خود اپنی جستجو کا آپ حاصل ہو گیا ہوں میں

تیری قربت میں گزارے ہوئے کچھ لمحے ہیں

دل کو تنہائی کا احساس دلانے والے

ستارے اس قدر دیکھے کہ آنکھیں بجھ گئیں اپنی

محبت اس قدر کر لی محبت چھوڑ دی ہم نے

جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں

اور جسے جان چکے ہوں وہ خدا کیسے ہو

شاید لوگ اسی رونق کو گرمئ محفل کہتے ہیں

خود ہی آگ لگا دیتے ہیں ہم اپنی تنہائی کو

اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں

آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو

دل و نگاہ کا یہ فاصلہ بھی کیوں رہ جائے

اگر تو آئے تو میں دل کو آنکھ میں رکھ لوں

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو

دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

تمہاری آنکھ میں کیفیت خمار تو ہے

شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی

ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ

میں ابھی آیا ہوں تصویریں پرانی دیکھ کر

دل سا وحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو

ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے

اب مرا درد مری جان ہوا جاتا ہے

اے مرے چارہ گرو اب مجھے اچھا نہ کرو

دل پر بھی آؤ ایک نظر ڈالتے چلیں

شاید چھپے ہوئے ہوں یہیں دن بہار کے

آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے

پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے

نیند آتی ہے اگر جلتی ہوئی آنکھوں میں

کوئی دیوانے کی زنجیر ہلا دیتا ہے

جلتے ہیں اک چراغ کی لو سے کئی چراغ

دنیا ترے خیال سے روشن ہوئی تو ہے

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے

اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

تیرگی ہی تیرگی حد نظر تک تیرگی

کاش میں خود ہی سلگ اٹھوں اندھیری رات میں

آرزوؤں نے کئی پھول چنے تھے لیکن

زندگی خار بداماں ہے اسے کیا کہیے

چھپ چھپ کے کہاں تک ترے دیدار ملیں گے

اے پردہ نشیں اب سر بازار ملیں گے

ذرا سا غم ہوا اور رو دیے ہم

بڑی نازک طبیعت ہو گئی ہے

تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا

چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا کیا ہے

منزل ہے کٹھن دل بہت آرام طلب ہے

کیوں یاد مجھے آتے ہو اے بھولنے والو

دل پہ اے دوست قیامت سی گزر جاتی ہے

تم نگاہ غلط انداز سے دیکھا نہ کرو

یار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتے

بزم میں میرا گلا سب نے کیا میرے بعد

سفر بھی دور کا ہے اور کہیں نہیں جانا

اب ابتدا اسے کہیے کہ انتہا کہیے

اداس چھوڑ گئے کشتیوں کو ساحل پر

گلا کریں بھی تو کیا پار اترنے والوں سے

یہ الگ بات زباں ساتھ نہ دے پائے گی

دل کا جو حال ہے کہنا تو پڑے گا تجھ سے

بگڑی ہوئی اس شہر کی حالت بھی بہت ہے

جاؤں بھی کہاں اس سے محبت بھی بہت ہے

کل تھی یہ فکر اسے حال سنائیں کیسے

آج یہ سوچتے ہیں اس کو سنا کیوں آئے

وہ مری صبحوں کا تارا وہ مری راتوں کا چاند

میرے دل کی روشنی تو تھا مگر میرا نہ تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے