Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دل پر اشعار

دل شاعری کے اس انتخاب

کو پڑھتے ہوئے آپ اپنے دل کی حالتوں ، کیفیتوں اور صورتوں سے گزریں گے اورحیران ہوں گے کہ کس طرح کسی دوسرے ،تیسرے آدمی کا یہ بیان دراصل آپ کے اپنے دل کی حالت کا بیان ہے ۔ اس بیان میں دل کی آرزوئیں ہیں ، امنگیں ہیں ، حوصلے ہیں ، دل کی گہرائیوں میں جم جانے والی اداسیاں ہیں ، محرومیاں ہیں ، دل کی تباہ حالی ہے ، وصل کی آس ہے ، ہجر کا دکھ ہے ۔

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

فیض احمد فیض

زندگی کس طرح بسر ہوگی

دل نہیں لگ رہا محبت میں

جون ایلیا

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

جون ایلیا

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

فراق گورکھپوری

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

علامہ اقبال

تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا

وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا

داغؔ دہلوی

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے

کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے

جلیل عالیؔ

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مہتاب رائے تاباں

ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

بہادر شاہ ظفر

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

علامہ اقبال

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں

عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

بشیر بدر

تم زمانے کی راہ سے آئے

ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

باقی صدیقی

شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے

دل ٹوٹے آواز نہ آئے

حفیظ میرٹھی

آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں

دل بیتاب کو عادت ہے مچل جانے کی

جلیل مانک پوری

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے

اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

جون ایلیا

ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا

مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

جگر مراد آبادی

میں ہوں دل ہے تنہائی ہے

تم بھی ہوتے اچھا ہوتا

فراق گورکھپوری

دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے

جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے

داغؔ دہلوی

مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ

اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

منیر نیازی

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

فیض احمد فیض

ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں

دل ہمیشہ اداس رہتا ہے

بشیر بدر

دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے

جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے

احمد فراز

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

پروین شاکر

دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں

دوستوں کی مہربانی چاہئے

عبد الحمید عدم

دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے

آگ میں آگ ملاتا ہے پھر پانی کرتا ہے

افتخار عارف

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یارب کئی دیے ہوتے

مرزا غالب

محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے

مگر مشکل تو یہ ہے دل بڑی مشکل سے ملتا ہے

جلیل مانک پوری

دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے

چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے

نشور واحدی

''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر''

چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

فیض احمد فیض

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

حیدر علی آتش

جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے

پھر بھی مصروف انتظار ہے دل

فیض احمد فیض

جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی

دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی

شکیل بدایونی

بت خانہ توڑ ڈالیے مسجد کو ڈھائیے

دل کو نہ توڑیئے یہ خدا کا مقام ہے

حیدر علی آتش

آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں

ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں

ساحر لدھیانوی

الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو

ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو

امیر مینائی

عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی

درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی

جلالؔ لکھنوی

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا

تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو

بشیر بدر

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

میر تقی میر

آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے

جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

جگر مراد آبادی

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا

بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

اسد علی خان قلق

ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے

رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے

عرفان صدیقی

دل کے آئینے میں ہے تصویر یار

جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

لالہ موجی رام موجی

بھول شاید بہت بڑی کر لی

دل نے دنیا سے دوستی کر لی

بشیر بدر

دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ

اب کسی پر فدا نہیں ہوتا

بیخود دہلوی

آرزو تیری برقرار رہے

دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا

حسرتؔ موہانی

دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں

لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں

قتیل شفائی

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

ناصر کاظمی

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

تشریح

عشق کی بیماری اور اس کے علاج ہونے کا مضمون اردو شاعری میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ عموماً اس مضمون کا بیان مایوسانہ ہوتا ہے۔ غالبؔ نے ان سے ہٹ کر نئی بات کہی ہے۔ سب سے پہلے تو سمجھ لینا چاہیے کہ غالب کے اشعار میں عاشق اور اس کا دل دو جدا گانہ اکائیوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ان دونوں میں دوستی، محبت، یگانگت اور ہمدردری کا رشتہ ہے۔ کبھی کبھی دونوں آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی نظر آتے ہیں۔ زیر بحث شعر میں دو باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ ایک دل کو نادان کہنا اور دوسرا ’’تجھے ہوا کیا ہے‘‘ کا ٹکڑا۔ دل کو نادان کہہ کر شاعر نے شعر میں معنی کے کئی احکامات پیدا کر دیئے ہیں۔ دل اپنی ناسمجھی میں عشق کی چوٹ لگا بیٹھا ہے۔ سمجھدار ہوتا تو اس جنجال میں نہ پھنستا۔ دل کو معلوم ہی نہیں کہ اس کا درد عشق کا درد ہے۔ ’تجھے ہوا کیا ہے‘ کو دوطرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ ایک سوالیہ انداز میں کہ سوال کرنے والا جاننا چاہتا ہے کہ دل کو جو درد ہے اس کی نوعیت کیا ہے۔ شاید دل کو خود بھی نہیں معلوم کہ اسے کیا ہو گیا ہے یا پھر وہ درد کی کیفیت کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ اس کے چہرہ سے عیاں ہے۔ پھر اسی ٹکڑے کو ہلکی سی جھنجھلاہٹ اور بے بسی کے انداز میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ یعنی ’یہ تجھے کیا ہو گیا ہے‘ کہ سیدھی سی بات بھی تیری سمجھ میں نہیں آتی۔ مصرع میں معنی کے اتنے احکامات رکھنے کے بعد شاعر دوسرے مصرع ’’آخر اس درد کی دوا کیا ہے‘‘ میں ایک بار پھر معنی کے کئی احکامات رکھ دیتا ہے۔ ایک تو یہ کہ تیرا درد عشق کا درد ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ لیکن شاعر کو اپنے دوست یعنی دل سے ہمدردی ہے۔ وہ سیدھے اور سپاٹ لہجہ میں ایسی بات کہہ کر اس کو مزید غمگین یا مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اس سے سوال کرتا ہے۔ بھائی مجھ کو بتاؤ تمہارا یہ درد کیسے دور ہو سکتا ہے۔ میں تمہارے لیے کیا کروں۔ تمہارا یہ درد مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔ میں ہر طرح تمہاری مدد کو تیار ہوں۔ کہو تو تمہارے محبوب سے تمہاری ملاقات کرانے کی کوشش کروں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ ساری باتیں ناممکنات میں سے ہیں، شاعر نے اپنے دوست یعنی دل کے ساتھ اپنی محبت اور ہمدرددی کا اظہار کرتے ہوئے ڈھکے چھپے انداز میں یہ بھی بتا دیا کہ درد عشق کی کوئی دوا ہے ہی نہیں۔ شعر میں نادان دل کے ساتھ دوستی، ہمدردی اور مروت کے اشارے اتنے مضبوط ہیں کہ اصل بات یعنی دردِ عشق کی کوئی دوا نہیں، پردوں میں چھپ گئی ہے۔ لیکن ٹھریئے۔ شاعر نے پورے شعر میں عشق کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ ہم نے تو دل، درد اور دوا یہ تین الفاظ پڑھ کر جھٹ سے فیصلہ کر لیا کہ یہ عشق کا تذکرہ ہے، کیوں بھائی! یہ درد تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ انسانی زندگی تو درد سے بھری پڑی ہے اور اس درد کا علاج کم سے کم ابھی تک تو دریافت نہیں ہوا۔

محمد اعظم

مرزا غالب

دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے

بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں

مہتاب عالم
بولیے