دل پر اشعار
دل شاعری کے اس انتخاب
کو پڑھتے ہوئے آپ اپنے دل کی حالتوں ، کیفیتوں اور صورتوں سے گزریں گے اورحیران ہوں گے کہ کس طرح کسی دوسرے ،تیسرے آدمی کا یہ بیان دراصل آپ کے اپنے دل کی حالت کا بیان ہے ۔ اس بیان میں دل کی آرزوئیں ہیں ، امنگیں ہیں ، حوصلے ہیں ، دل کی گہرائیوں میں جم جانے والی اداسیاں ہیں ، محرومیاں ہیں ، دل کی تباہ حالی ہے ، وصل کی آس ہے ، ہجر کا دکھ ہے ۔
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
-
موضوعات : امیداور 4 مزید
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
-
موضوعات : اداسیاور 4 مزید
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا
وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
-
موضوع : حسرت
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
-
موضوعات : اقبال ڈےاور 2 مزید
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
-
موضوع : مشہور اشعار
آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں
دل بیتاب کو عادت ہے مچل جانے کی
ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا
میں ہوں دل ہے تنہائی ہے
تم بھی ہوتے اچھا ہوتا
دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے
جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
-
موضوعات : انتظاراور 2 مزید
ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں
دل ہمیشہ اداس رہتا ہے
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
-
موضوعات : اداسیاور 3 مزید
دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
دوستوں کی مہربانی چاہئے
دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے
آگ میں آگ ملاتا ہے پھر پانی کرتا ہے
محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے
مگر مشکل تو یہ ہے دل بڑی مشکل سے ملتا ہے
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
-
موضوعات : چراغاور 1 مزید
''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر''
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
-
موضوع : یاد
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
-
موضوع : مشہور اشعار
جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے
پھر بھی مصروف انتظار ہے دل
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
بت خانہ توڑ ڈالیے مسجد کو ڈھائیے
دل کو نہ توڑیئے یہ خدا کا مقام ہے
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
-
موضوعات : دعااور 2 مزید
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
-
موضوعات : ویرانیاور 1 مزید
آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے
ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
-
موضوعات : ادااور 2 مزید
ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
بھول شاید بہت بڑی کر لی
دل نے دنیا سے دوستی کر لی
دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ
اب کسی پر فدا نہیں ہوتا
آرزو تیری برقرار رہے
دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا
-
موضوع : آرزو
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں
-
موضوعات : عشقاور 3 مزید
دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
-
موضوعات : شہراور 1 مزید
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
تشریح
عشق کی بیماری اور اس کے علاج ہونے کا مضمون اردو شاعری میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ عموماً اس مضمون کا بیان مایوسانہ ہوتا ہے۔ غالبؔ نے ان سے ہٹ کر نئی بات کہی ہے۔ سب سے پہلے تو سمجھ لینا چاہیے کہ غالب کے اشعار میں عاشق اور اس کا دل دو جدا گانہ اکائیوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ان دونوں میں دوستی، محبت، یگانگت اور ہمدردری کا رشتہ ہے۔ کبھی کبھی دونوں آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی نظر آتے ہیں۔ زیر بحث شعر میں دو باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ ایک دل کو نادان کہنا اور دوسرا ’’تجھے ہوا کیا ہے‘‘ کا ٹکڑا۔ دل کو نادان کہہ کر شاعر نے شعر میں معنی کے کئی احکامات پیدا کر دیئے ہیں۔ دل اپنی ناسمجھی میں عشق کی چوٹ لگا بیٹھا ہے۔ سمجھدار ہوتا تو اس جنجال میں نہ پھنستا۔ دل کو معلوم ہی نہیں کہ اس کا درد عشق کا درد ہے۔ ’تجھے ہوا کیا ہے‘ کو دوطرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ ایک سوالیہ انداز میں کہ سوال کرنے والا جاننا چاہتا ہے کہ دل کو جو درد ہے اس کی نوعیت کیا ہے۔ شاید دل کو خود بھی نہیں معلوم کہ اسے کیا ہو گیا ہے یا پھر وہ درد کی کیفیت کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ اس کے چہرہ سے عیاں ہے۔ پھر اسی ٹکڑے کو ہلکی سی جھنجھلاہٹ اور بے بسی کے انداز میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ یعنی ’یہ تجھے کیا ہو گیا ہے‘ کہ سیدھی سی بات بھی تیری سمجھ میں نہیں آتی۔ مصرع میں معنی کے اتنے احکامات رکھنے کے بعد شاعر دوسرے مصرع ’’آخر اس درد کی دوا کیا ہے‘‘ میں ایک بار پھر معنی کے کئی احکامات رکھ دیتا ہے۔ ایک تو یہ کہ تیرا درد عشق کا درد ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ لیکن شاعر کو اپنے دوست یعنی دل سے ہمدردی ہے۔ وہ سیدھے اور سپاٹ لہجہ میں ایسی بات کہہ کر اس کو مزید غمگین یا مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اس سے سوال کرتا ہے۔ بھائی مجھ کو بتاؤ تمہارا یہ درد کیسے دور ہو سکتا ہے۔ میں تمہارے لیے کیا کروں۔ تمہارا یہ درد مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔ میں ہر طرح تمہاری مدد کو تیار ہوں۔ کہو تو تمہارے محبوب سے تمہاری ملاقات کرانے کی کوشش کروں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ ساری باتیں ناممکنات میں سے ہیں، شاعر نے اپنے دوست یعنی دل کے ساتھ اپنی محبت اور ہمدرددی کا اظہار کرتے ہوئے ڈھکے چھپے انداز میں یہ بھی بتا دیا کہ درد عشق کی کوئی دوا ہے ہی نہیں۔ شعر میں نادان دل کے ساتھ دوستی، ہمدردی اور مروت کے اشارے اتنے مضبوط ہیں کہ اصل بات یعنی دردِ عشق کی کوئی دوا نہیں، پردوں میں چھپ گئی ہے۔ لیکن ٹھریئے۔ شاعر نے پورے شعر میں عشق کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ ہم نے تو دل، درد اور دوا یہ تین الفاظ پڑھ کر جھٹ سے فیصلہ کر لیا کہ یہ عشق کا تذکرہ ہے، کیوں بھائی! یہ درد تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ انسانی زندگی تو درد سے بھری پڑی ہے اور اس درد کا علاج کم سے کم ابھی تک تو دریافت نہیں ہوا۔
محمد اعظم
دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں