Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دنیا پر اشعار

دنیا کو ہم سب نے اپنی

اپنی آنکھ سے دیکھا اور برتا ہے اس عمل میں بہت کچھ ہمارا اپنا ہے جو کسی اور کا نہیں اور بہت کچھ ہم سے چھوٹ گیا ہے ۔ دنیا کو موضوع بنانے والے اس خوبصورت شعری انتخاب کو پڑھ کر آپ دنیا سے وابستہ ایسے اسرار سے واقف ہوں گے جن تک رسائی صرف تخلیقی اذہان ہی کا مقدر ہے ۔ ان اشعار کو پڑھ کر آپ دنیا کو ایک بڑے سیاق میں دیکھنے کے اہل ہوں گے ۔

یہ کائنات مرے سامنے ہے مثل بساط

کہیں جنوں میں الٹ دوں نہ اس جہان کو میں

اختر عثمان

اک نظر کا فسانہ ہے دنیا

سو کہانی ہے اک کہانی سے

نشور واحدی

کر ہی کیا سکتی ہے دنیا اور تجھ کو دیکھ کر

دیکھتی جائے گی اور حیران ہوتی جائے گی

امیر امام

جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز

واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی

ساقی فاروقی

کر ہی کیا سکتی ہے دنیا اور تجھ کو دیکھ کر

دیکھتی جائے گی اور حیران ہوتی جائے گی

امیر امام

زمانہ کی کشاکش کا دیا پیہم پتہ مجھ کو

کہیں ٹوٹے ہوئے دل نے کہیں ٹوٹے ہوئے سر نے

امن لکھنوی

بھول شاید بہت بڑی کر لی

دل نے دنیا سے دوستی کر لی

بشیر بدر

کوئی دن اور غم ہجر میں شاداں ہو لیں

ابھی کچھ دن میں سمجھ جائیں گے دنیا کیا ہے

محمود ایاز

یہ دنیا ہے یہاں اصلی کہانی پشت پر رکھنا

لبوں پر پیاس رکھنا اور پانی پشت پر رکھنا

احتشام الحق صدیقی

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ

یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

اختر شیرانی

کف افسوس ملنے سے بھلا اب فائدہ کیا ہے

دل راحت طلب کیوں ہم نہ کہتے تھے یہ دنیا ہے

افضال سرسوی

دنیا بدل رہی ہے زمانہ کے ساتھ ساتھ

اب روز روز دیکھنے والا کہاں سے لائیں

افتخار عارف

گنوا دی عمر جس کو جیتنے میں

وہ دنیا میری جاں تیری نہ میری

امیتا پرسو رام میتا

پھر سے خدا بنائے گا کوئی نیا جہاں

دنیا کو یوں مٹائے گی اکیسویں صدی

بشیر بدر

دنیا کی کیا چاہ کریں

دنیا آنی جانی ہے

تنویر گوہر

لائی ہے کہاں مجھ کو طبیعت کی دو رنگی

دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے خفا بھی

مدحت الاختر

گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا

ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا

اسعد بدایونی

قلندری مری پوچھو ہو دوستان جنوں

ہر آستاں مری ٹھوکر ث جانا جاتا ہے

شہاب جعفری

یہ دنیا ہے یہاں ہر آبگینہ ٹوٹ جاتا ہے

کہیں چھپتے پھرو آخر زمانہ ڈھونڈھ ہی لے گا

عطا الرحمن جمیل

بس ہم دونوں زندہ ہیں

باقی دنیا فانی ہے

نذیر قیصر

ہم دنیا سے جب تنگ آیا کرتے ہیں

اپنے ساتھ اک شام منایا کرتے ہیں

تیمور حسن

اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے

ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے

دتا تریہ کیفی

دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا

یاں لوگ عجب عجب ملیں گے

میر حسن

خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہ ناز ہے کس کی

ہزاروں اٹھ گئے لیکن وہی رونق ہے مجلس کی

نامعلوم

دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا

اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا

اقبال ساجد

دنیا بہت خراب ہے جائے گزر نہیں

بستر اٹھاؤ رہنے کے قابل یہ گھر نہیں

لالہ مادھو رام جوہر

ایک میں ہوں کہ اس آشوب نوا میں چپ ہوں

ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے

عرفان صدیقی

ہم کہ اپنی راہ کا پتھر سمجھتے ہیں اسے

ہم سے جانے کس لیے دنیا نہ ٹھکرائی گئی

خورشید رضوی

ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت

پھر بھی اے دوست تری ایک نظر سے کم ہے

ادریس بابر

مجھ پہ ہو کر گزر گئی دنیا

میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں

فہمی بدایونی

اک درد محبت ہے کہ جاتا نہیں ورنہ

جس درد کی ڈھونڈے کوئی دنیا میں دوا ہے

مصحفی غلام ہمدانی

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

افتخار عارف

مری تو ساری دنیا بس تمہی ہو

غلط کیا ہے جو دنیا دار ہوں میں

رحمان فارس

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

شہریار

دنیا تو ہے دنیا کہ وہ دشمن ہے سدا کی

سو بار ترے عشق میں ہم خود سے لڑے ہیں

جلیل عالیؔ

دنیا کی روش دیکھی تری زلف دوتا میں

بنتی ہے یہ مشکل سے بگڑتی ہے ذرا میں

عزیز حیدرآبادی

ایک خواب و خیال ہے دنیا

اعتبار نظر کو کیا کہئے

فگار اناوی

تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ

دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا

عبد الحمید عدم

بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ

نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے

آفتاب حسین

ہم یقیناً یہاں نہیں ہوں گے

غالباً زندگی رہے گی ابھی

ابرار احمد

میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

عرفان صدیقی

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

احمد فراز

دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت

سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے

جمال احسانی

چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے

نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

شہاب جعفری

کس خرابی سے زندگی فانیؔ

اس جہان خراب میں گزری

فانی بدایونی

مکمل داستاں کا اختصار اتنا ہی کافی ہے

سلایا شور دنیا نے جگایا شور محشر نے

امن لکھنوی

اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے

اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے

فریاد آزر

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

اکبر الہ آبادی

کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے

دنیا ہے تری زلف گرہ گیر نہیں ہے

حفیظ بنارسی

پاؤں جب سمٹے تو رستے بھی ہوئے تکیہ نشیں

بوریا جب تہ کیا دنیا اٹھا کر لے گئے

شہاب جعفری

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے