Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دل پر اشعار

دل شاعری کے اس انتخاب

کو پڑھتے ہوئے آپ اپنے دل کی حالتوں ، کیفیتوں اور صورتوں سے گزریں گے اورحیران ہوں گے کہ کس طرح کسی دوسرے ،تیسرے آدمی کا یہ بیان دراصل آپ کے اپنے دل کی حالت کا بیان ہے ۔ اس بیان میں دل کی آرزوئیں ہیں ، امنگیں ہیں ، حوصلے ہیں ، دل کی گہرائیوں میں جم جانے والی اداسیاں ہیں ، محرومیاں ہیں ، دل کی تباہ حالی ہے ، وصل کی آس ہے ، ہجر کا دکھ ہے ۔

درد دل کیا بیاں کروں رشکیؔ

اس کو کب اعتبار آتا ہے

محمد علی خاں رشکی

سکون دل کے لیے عشق تو بہانہ تھا

وگرنہ تھک کے کہیں تو ٹھہر ہی جانا تھا

فاطمہ حسن

عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی

درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی

جلالؔ لکھنوی

سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے

چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے

محسن نقوی

اچھی صورت نظر آتے ہی مچل جاتا ہے

کسی آفت میں نہ ڈالے دل ناشاد مجھے

جلیل مانک پوری

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مہتاب رائے تاباں

ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا

یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا

خلیل الرحمن اعظمی

دل دیکھتے ہی اس کو گرفتار ہو گیا

رسوائے شہر و کوچہ و بازار ہو گیا

شیخ ظہور الدین حاتم

دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے

کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا

اختر حسین جعفری

دل کی بربادیوں پہ نازاں ہوں

فتح پا کر شکست کھائی ہے

شکیل بدایونی

ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل

اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا

آزاد انصاری

دل مرا خواب گاہ دلبر ہے

بس یہی ایک سونے کا گھر ہے

لالہ مادھو رام جوہر

ڈر گیا ہے جی کچھ ایسا ہجر سے

تم جو پہلو سے اٹھے دل ہل گیا

جلیل مانک پوری

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

علی سردار جعفری

نہ جانے کب ترے دل پر نئی سی دستک ہو

مکان خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا

بشیر بدر

دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے

اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے

بشیر بدر

میں جتنا ڈھونڈھتا ہوں اس کو اتنا ہی نہیں پاتا

کدھر ہے کس طرف ہے اور کہاں ہے دل خدا جانے

شیخ ظہور الدین حاتم

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے

اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

خواجہ میر درد

دل مرحوم کو خدا بخشے

ایک ہی غم گسار تھا نہ رہا

فانی بدایونی

مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دل میں گھر کیسے کریں

درمیاں کے فاصلے کا طے سفر کیسے کریں

فرخ جعفری

ایک کرن بس روشنیوں میں شریک نہیں ہوتی

دل کے بجھنے سے دنیا تاریک نہیں ہوتی

زیب غوری

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

مرزا غالب

دل اس کی تار زلف کے بل میں الجھ گیا

سلجھے گا کس طرح سے یہ بستار ہے غضب

شیخ ظہور الدین حاتم

ایک سفر وہ ہے جس میں

پاؤں نہیں دل تھکتا ہے

احمد فراز

دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی

خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی

ندا فاضلی

خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے

کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا

نظیر اکبرآبادی

دل وہ صحرا ہے جہاں حسرت سایہ بھی نہیں

دل وہ دنیا ہے جہاں رنگ ہے رعنائی ہے

عطا شاد

دم بہ دم اٹھتی ہیں کس یاد کی لہریں دل میں

درد رہ رہ کے یہ کروٹ سی بدلتا کیا ہے

جمال پانی پتی

آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے

جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

جگر مراد آبادی

کیا رشک ہے کہ ایک کا ہے ایک مدعی

تم دل میں ہو تو درد ہمارے جگر میں ہے

ہجر ناظم علی خان

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے

منظر لکھنوی

پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا

دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں

لالہ مادھو رام جوہر

محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے

مگر مشکل تو یہ ہے دل بڑی مشکل سے ملتا ہے

جلیل مانک پوری

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

شیخ ابراہیم ذوقؔ

مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند

دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند

بیخود دہلوی

روز جزا گلہ تو کیا شکر ستم ہی بن پڑا

ہائے کہ دل کے درد نے درد کو دل بنا دیا

فانی بدایونی

دل میں وہ بھیڑ ہے کہ ذرا بھی نہیں جگہ

آپ آئیے مگر کوئی ارماں نکال کے

جلیل مانک پوری

دل لیا ہے تو خدا کے لئے کہہ دو صاحب

مسکراتے ہو تمہیں پر مرا شک جاتا ہے

حبیب موسوی

دل دیا جس نے کسی کو وہ ہوا صاحب دل

ہاتھ آ جاتی ہے کھو دینے سے دولت دل کی

آسی غازی پوری

جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو

کل پشیماں ہوں کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں

احمد فراز

انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں

میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے

شکیل بدایونی

دیکھو دنیا ہے دل ہے

اپنی اپنی منزل ہے

محبوب خزاں

آرزو تیری برقرار رہے

دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا

حسرتؔ موہانی

وہ بات ذرا سی جسے کہتے ہیں غم دل

سمجھانے میں اک عمر گزر جائے ہے پیارے

کلیم عاجز

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا

تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو

بشیر بدر

یہ دل ہے مرا یا کسی کٹیا کا دیا ہے

بجھتا ہے دم صبح تو جلتا ہے سر شام

حفیظ تائب

یا رہیں اس میں اپنے گھر کی طرح

یا مرے دل میں آپ گھر نہ کریں

جوشؔ ملسیانی

خموشی دل کو ہے فرقت میں دن رات

گھڑی رہتی ہے یہ آٹھوں پہر بند

لالہ مادھو رام جوہر

دل کو معلوم ہے کیا بات بتانی ہے اسے

اس سے کیا بات چھپانی ہے زباں جانتی ہے

ارشد عبد الحمید

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے