Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بارش پر 20 منتخب اشعار

بارش کا لطف یا تو آپ

بھیگ کر لیتے ہوں گے یا بالکنی میں بیٹھ کر گرتی ہوئی بوندوں اور چمک دار آسمان کو دیکھ کر، لیکن کیا آپ نے ایسی شاعری پڑھی ہے جو صرف برسات ہی نہیں بلکہ بے موسم بھی برسات کا مزہ دیتی ہو ؟ ۔ یہاں ہم آپ کے لئے ایسی ہی شاعری پیش کر رہے ہیں جو برسات کے خوبصورت موسم کو موضوع بناتی ہے ۔ اس برساتی موسم میں اگر آپ یہ شاعری پڑھیں گے تو شاید کچھ ایسا ہو، جو یادگار ہوجائے۔

دھوپ نے گزارش کی

ایک بوند بارش کی

محمد علوی

اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں

بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی

جمال احسانی

اس کو آنا تھا کہ وہ مجھ کو بلاتا تھا کہیں

رات بھر بارش تھی اس کا رات بھر پیغام تھا

ظفر اقبال

دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں

بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں

اظہر فراغ

بھیگی مٹی کی مہک پیاس بڑھا دیتی ہے

درد برسات کی بوندوں میں بسا کرتا ہے

مرغوب علی

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

جمال احسانی

چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش

یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں

صبا اکرام

کچی دیواروں کو پانی کی لہر کاٹ گئی

پہلی بارش ہی نے برسات کی ڈھایا ہے مجھے

زبیر رضوی

شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی

رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا

منیر نیازی

برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی

بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی

حسرتؔ موہانی

حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو

کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو

سعود عثمانی

ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر

وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے

سجاد باقر رضوی

میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو

مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے

گلزار

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے

جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

پروین شاکر

کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے

ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا

اختر ہوشیارپوری

بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ

بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا

عبد الحمید عدم

ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ

تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی

انجم سلیمی

برسات تھم چکی ہے مگر ہر شجر کے پاس

اتنا تو ہے کہ آپ کا دامن بھگو سکے

احسن یوسف زئی

کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں

تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو

جاذب قریشی

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا

اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

قتیل شفائی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے