Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آنکھ پر 20 منتخب اشعار

آنکھ انسانی جسم کا

مرکزی حصہ ہے ۔ اس عضو کی افادیت صرف دیکھنے کی حد تک ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بھی اس کے متنوع اور رنگا رنگ کردار ہیں ۔ عشق کے بیانیے میں یہ کردار اور زیادہ دلچسپ ہوجاتے ہیں ۔ شاعروں نے محبوب کی آنکھوں اور ان کی خوبصورتی کو نئے نئے ڈھنگ سے باندھا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور آنکھوں کی مخمور کر دینے والی کیفیتوں کو محسوس کیجئے ۔

جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے

وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں

فراق گورکھپوری

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن

زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

جگر مراد آبادی

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ

ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

محمد رفیع سودا

جب ترے نین مسکراتے ہیں

زیست کے رنج بھول جاتے ہیں

عبد الحمید عدم

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو

تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

منور رانا

تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں

ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

جگر مراد آبادی

ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے

دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے

اختر شیرانی

آنکھیں نہ جینے دیں گی تری بے وفا مجھے

کیوں کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے قضا مجھے

امداد علی بحر

لڑنے کو دل جو چاہے تو آنکھیں لڑائیے

ہو جنگ بھی اگر تو مزے دار جنگ ہو

لالہ مادھو رام جوہر

ہر ایک آنکھ میں ہوتی ہے منتظر کوئی آنکھ

ہر ایک دل میں کہیں کچھ جگہ نکلتی ہے

ابرار احمد

ہم محبت کا سبق بھول گئے

تیری آنکھوں نے پڑھایا کیا ہے

جمیلؔ مظہری

ادھر ادھر مری آنکھیں تجھے پکارتی ہیں

مری نگاہ نہیں ہے زبان ہے گویا

بسمل سعیدی

کہیں نہ ان کی نظر سے نظر کسی کی لڑے

وہ اس لحاظ سے آنکھیں جھکائے بیٹھے ہیں

نوح ناروی

پیمانہ کہے ہے کوئی مے خانہ کہے ہے

دنیا تری آنکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے

نامعلوم

آنکھ رہزن نہیں تو پھر کیا ہے

لوٹ لیتی ہے قافلہ دل کا

جلیل مانک پوری

آنکھ سے آنکھ ملانا تو سخن مت کرنا

ٹوک دینے سے کہانی کا مزا جاتا ہے

محسن اسرار

دلوں کا ذکر ہی کیا ہے ملیں ملیں نہ ملیں

نظر ملاؤ نظر سے نظر کی بات کرو

صوفی غلام مصطفےٰ تبسم

اک حسیں آنکھ کے اشارے پر

قافلے راہ بھول جاتے ہیں

عبد الحمید عدم

اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو

مندروں میں چراغ جلتے ہیں

بشیر بدر

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں

دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

عرفان صدیقی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے